اعلیٰ سرکاری ملازمین کو اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی شرط تسلیم
یہ اچھی بات ہے۔ چلو جو ہم سے نہ ہو سکا آئی ایم ایف کے دبائو پر ہی سہی گریڈ 17 سے 22 تک کے اعلیٰ سرکاری افسران کو اب اپنے اور اہلخانہ کے اثاثے ظاہر کرنا ہونگے۔ نہ ہونے سے کچھ ہونا زیادہ بہتر ہے۔ اس کام میں بھی شاطر افسران خوب ڈنڈی ماریں گے۔ صرف وہی ظاہر کریں گے جو باپ دادا کی طرف سے ملا ہے۔ باقی تو ایسا ظاہر کریں گے کہ لوگوں کو ترس آنے لگے گا کہ بے چارے کتنے مستحق و مسکین ہیں۔ اب قانون کا کام ہے کہ وہ اثاثے ظاہر ہونے کے بعد ان کے ٹھاٹھ باٹھ پر تعیش زندگی، اہلخانہ کی عیاشیوں، اخراجات خریداریوں کا حساب کتاب کرے ان کے بچوں کی تعلیم کا پوچھے تو پتہ چلے گا ان کے اخراجات تو لاکھوں میں ہیں۔ غیر ملکی سفر و تعلیم عام تنخواہ پر ایک بیوروکریٹ نہیں کر سکتا۔ مگر دیکھ لیں یہ سب اعلیٰ افسران اتنے خرچ کہاں سے پورے کرتے ہیں۔ ایسی کونسی جادوئی چھڑی یا الہ دین کا چراغ ان کے پاس ہے کہ آمدن لاکھوں میں اور اخراجات کروڑوں کے ہوتے ہیں۔ عالی شان گھر گاڑیاں، نوکر چاکر، اخراجات کا اصل منبع دریافت کرنا بے حد ضروری ہے۔ ویسے صرف یہ برق گرتی ہے بے چارے سرکاری افسران پر ہی کیوں۔ ہمارے تاجروں، صنعتکاروں، جاگیرداروں کو بھی اس صف میں لانے کی اشد ضرورت ہے جو سالانہ اربوں کماتے ہیں۔ چند لاکھ ٹیکس ادا نہیں کرتے ملکی خزانے کو ا س کا حصہ دیتے ہوئے ان کی جان نکلتی ہے۔ ان سب کے بھی ذرائع آمدن اور اخراجات کی تفصیل اکٹھی کر کے ان کو بھی ملک و قوم کی خاطر قربانی کے ثواب کی طرف راغب کرنا ہوں۔ سب سے زیادہ فائدہ وہی اٹھاتے ہیں اور ٹکا بھی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔ اب ان کو بھی ٹیکس کے مزہ سے روشناس کرایا جائے۔ گولی کڑوی ہی کیوں نہ ہو بیماری سے نجات کے لیے نگلنا ہی پڑتی ہے۔
اسرائیل کیخلاف بیانات پر امریکی امور خارجہ کمیٹی کی رکن عمر الہان فارغ
اب کون کہتا ہے کہ امریکی پالیسیاں آزاد ہیں۔ امریکہ آزاد ملک ہے امریکہ آزادی کا نقیب ہے۔ صرف مجسمہ آزادی کی تصویریں دکھا دکھا کر دنیا کو بے وقوف بنانا آسان ہے مگر حقیقی دنیا میں عملی طور پر آزادی کے لیے لڑنے اور کام کرنے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ امریکہ کی تمامتر پالیسیاں اس وقت بھی پنجہ یہود میں ہیں۔ مختصر سی یہودی اقلیت پوری مسیحی دنیا پر تسلط جمائے بیٹھی ہے۔ ایک مختصر سے قصے ہولوکاسٹ کو تمہید طولانی باندھ کر اس پر صرف رونا جائز قرار دیا گیا ہے مگر اس کے خلاف بات کرنا جرم ہے۔ کیا یہی پالیسی فلسطینیوں کے بارے میں اپنائی جا سکتی ہے جہاں روزانہ اسرائیلی قابض فوج کے ہاتھوں ہولوکاسٹ جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ مگر کیا امریکہ کیا یورپ سب خاموش رہتے ہیں۔ کسی اور سے کیا گلہ کرنا اب تو مسلم ممالک آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرا رہے ہیں۔ امریکی خارجہ کمیٹی کی رکن عمرالہان افریقی نژاد نوجوان خاتون ہیں۔ دلیر اور جری بھی ہیں۔ مگر یہ جرأت رندانہ امریکی حکام سے برداشت نہیں ہوئی کیونکہ وہ کھل کر فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیلی فوجی مظالم پر بات کرتی ہیں۔ یہ بات نہ اسرائیل سے ہضم ہو رہی ہے نہ امریکہ کو پسند ہے۔ چنانچہ انہیں اس جرم حق گوئی و بے باکی کی پاداش میں حکومت امریکہ نے خارجہ امور کی کمیٹی سے فارغ کر دیا ہے۔ بس اتنی سے ہی امریکی اظہار رائے کی آزادی کی حدود اور دعویٰ کتنے بڑے کئے جاتے ہیں۔ مگر اس طرح وہ حق کی آواز کو دبا نہیں پائے گا۔ عمرالہان اور ان جیسے ہزاروں آزادی پسند امریکی ہر جگہ امریکی آزادی کی نام نہاد دعوئوں کی بھد اڑاتے رہیں گے فلسطین کے حق میں بولتے رہیں گے ’’دبے گی کب تلک آواز آدم۔‘‘
سندھ اسمبلی میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کی گریڈ 20 میں تقرری پر ہائی کورٹ برہم
اس پر ہم بڑی آسانی سے ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ کہہ کر دل کے پھپھولے پھوڑ سکتے ہیں کیونکہ ایسے اقدامات کی وجہ سے ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ کہا جاتا ہے۔ مگر ہمارے کرتا دھرتائوں کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ وہ جس درخت کی چھائوں تلے آرام کر رہے ہوتے ہیں اس کی ہی جڑ کاٹنے لگتے ہیں۔ اب بھلا ہم جیسے لوگ کہاں اور پائے جاتے ہوں گے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج کل میڈیا کا دور ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی سوشل میڈیا کی بدولت دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ مگر ہم پھر بھی رسوائی والے کام بڑے سکون سے سرانجام دیتے ہیں اور مطمئن ہوتے ہیں کہ کوئی کیا کر لے گا۔ اب سندھ میں دیکھ لیں وہاں کی صوبائی اسمبلی میں ایک ہی خاندان کے 5 افراد کو گریڈ 20 میں ملازمت دی گئی ہے۔ بات نائب قاصد یا کلرک بادشاہ تک ہی محدود ہوتی تو لوگوں کو صبر آتا حالانکہ وہ بھی غلط ہے۔ مگر اس بات پر تو عدالت کا بھی ماتھا ٹھنکا اور اس نے اس مسئلے پر جواب طلب کیا ہے۔ چراغ تلے اندھیرا تو سب نے سُنا تھا مگر یہ تو سارا گھر چراغوں سے روشن ہے۔ اس خاندان میں ایسی کیا خاص بات ہے یہ تو نوکری لگانے والے حکمران جانتے ہوں گے جن کے یہ رشتہ دار ہیں۔ ورنہ عام آدمی کتنا پڑھا لکھا اور پھنے خان ہو اسے یہ سعادت نصیب نہیں ہوتی کہ وہ گریڈ 20 کی نوکری پر ہاتھ صاف کرے۔ یہ بڑے مقدر کی بات ہے لکشمی یوں ہی کسی پر مہربان نہیں ہوتی۔ اسے راضی کرنے کے لیے بڑی تپسیا کی جاتی ہے۔ اس کے چرنوں میں بھاری بھینٹ چڑھائی جاتی ہے تب جا کر دولت اس گھر کا راستہ دیکھتی ہے جہاں لکشمی نے قدم دھرنا ہوتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں قانون کس طرح اس راہ کا سراغ لگاتا ہے جہاں سے لکشمی گزر کر اس گھر کی طرف پدھاری ہے۔
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے مینٹل ہسپتال میں صحت یاب مریضوں کے تعین کیلئے کمیٹی بنا دی
دماغی امراض ہسپتال میں جائیں تو ایسی ایسی کہانیاں سُننے کو ملتی ہیں کہ خود انسان کا اپنے آپ سے انسانیت سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ وہاں سب پاگل یا ذہنی مریض ہی نہیں ہوتے ان میں سے اکثر بنائے گئے ہوتے ہیں۔ ان کو ان کے اپنوں نے پاگل بنایا ہوتا ہے۔ کہیں جائیداد کے لیے کہیں پیسے کے لیے کہیں وراثت کے لیے کہیں ترکے کے لیے کہیں بیوی کے کہنے پر کہیں شوہر کے کہنے پر کہیں خود بچوں نے اپنے والدین کو پاگل قرار دے کر یہاں داخل کرایا ہوتا ہے۔ زن زر تے زمین کی اس سنہری تکون سے تو کوئی باہر نہیں مگر لالچی لوگوں کا کیا کریں جو ان تینوں کی خاطر بھائی بہن ماں باپ جیسے خونی رشتوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ یہاں برسوں پڑے رہنے کی وجہ سے اچھے بھلے لوگ بھی ذہنی توازن کھو دیتے ہیں جنہیں ان کے اپنے یہاں داخل کرا جاتے ہیں یوں یہ ناقابل علاج ہو جاتے ہیں۔ باقی رہے وہ لوگ جو واقعی پاگل ہوتے ہیں ان کا علاج اگر مناسب ماحول اور خصوصی توجہ سے کیا جائے تو وہ آہستہ آہستہ دنیا کی طرف لوٹ آتے ہیں اور نارمل ہو جاتے ہیں۔ کسی ڈر یا لالچ کی وجہ سے ان کے گھر والے بھی انہیں لینے نہیں آتے۔ یہ بات بڑا المیہ ہے۔ صحیح الدماغ اشخاص کو ذہنی امراض کے ہسپتال میں رکھنا ظلم ہے۔ اب نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایسے تمام مریضوں کے تعین کے لیے حکومتی کمیٹی بنائی ہے جو دماغی امراض کے ہسپتال میں مقیم مریضوں کا معائنہ کر کے ریکارڈ چیک کر کے تندرست ہونے والے مریضوں کو ہسپتال سے فارغ کرنے کی سفارش کرے گی تاکہ وہ معاشرے میں عام آدمی کی طرح اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ یوں ہسپتال میں نئے مریضوں کی جگہ نکلے گی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر یہاں داخل ہوتے وقت اچھی طرح چھان پھٹک بھی کی جائے تاکہ صحت مند مریض جو اپنوں کی مہربانی سے یہاں داخل ہوتے ہیں وہ بچ جائیں اور مستحق و اصل مریض ہی یہاں علاج کے لیے داخل ہوں۔