جیل بھرو تحریک کی بجائے ملک سنبھالو تحریک چلائیں


اس وقت پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اپنی بدترین شکل میں موجود ہے اور اس کی وجہ سے ملک کے مسائل مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ سیاسی قیادت کو اس بات سے کوئی سروکارنہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث عام آدمی کو کس سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ہر جماعت کی بس یہ کوشش ہے کہ وہ کسی طرح اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اقتدار کے ایوانوں سے تقریباً دس مہینے پہلے باہر نکالے جانے والے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اس وقت عوام کی پریشانیوں اور تکلیفوں کا احساس بہت ستا رہا ہے لیکن جب وہ ملک کے وزیراعظم تھے اس وقت وہ لوگوں کو بتایا کرتے تھے کہ مہنگائی کیوں ضروری ہے اور اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں کی بات نہ مانی گئی تو ملک کو کن الجھنوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہی حال حکمران اتحاد میں شامل لوگوں کا ہے کہ وہ جب حزبِ اختلاف میں تھے تو انھیں عوام کی مصیبتیں چین نہیں لینے دیتی تھیں لیکن جس دن سے زمامِ اقتدار ان کے ہاتھ میں آئی ہے انھیں عوام کے مسائل و مصائب دکھائی ہی نہیں دے رہے۔
سیاسی عدم استحکام کسی ملک کے مسائل میں کیسے اضافہ کرتا ہے اس کا جائزہ لینے کے لیے آج کے پاکستان کے حالات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت ملک ایک جانب اقتصادی عدم استحکام کا شکار ہے تو دوسری جانب اسے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے، اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاسی قیادت باہمی آویزش سے احتراز کرتے ہوئے متحد ہو کر ملکی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے لیکن ہر سیاسی رہنما پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں ہے۔ عمران خان ہر دو تین ہفتے کے بعد کوئی نئی بات لے کر سامنے آ جاتے ہیں اور پھر اگلے چند دن اس حوالے سے دونوں جانب سے شدید لفظی گولا باری ہوتی رہتی ہے۔ اس صورتحال سے حکمران اتحاد میں شامل لوگوں یا عمران خان کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کا کام یہ سب کرنا ہے لیکن اس سے عوام کی پریشانیاں بڑھتی ہیں کیونکہ ایسی ماحول میں کوئی سنجیدہ بات نہیں ہوسکتی، ایک دوسرے کو طعنے کوسنے دیے جاسکتے ہیں اور وہ دونوں جانب سے پوری تندہی کے ساتھ دیے جارہے ہیں۔
اب عمران خان نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ ہفتے کے روز لاہور کے زمان پارک میں واقع اپنے گھر کے پُر سکون ماحول میں بیٹھ کر انھوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے جیل بھرو تحریک کا اعلان کردیا ہے اور اپنے کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ اس اعلان کے مطابق جیلیں بھرنے کی تیاری کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پکڑ دھکڑ سے ڈرنے والے نہیں۔ کارکن تو ممکن ہے اسی طرح اپنے قائد کی بات مان لیں جیسے اگست 2014 ء میں انھوں نے سول نافرمانی کی تحریک کے بیان کو سنجیدہ سمجھتے ہوئے اس وقت کی حکومت کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا تھا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے چیئرمین خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ عمران خان 3 نومبر 2022ء کو وزیر آباد میں خود پر ہونے والے مبینہ قاتلانہ حملے کو بنیاد بنا کر گزشتہ تین مہینے سے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں جہاں پہلے انھوں نے خیبر پختونخوا سے اپنی حفاظت کے لیے پولیس کے کمانڈوز بلائے تھے اور اب پنجاب پولیس کے علاوہ کارکنوں کو بھی ڈھال بنایا ہوا ہے۔
عمران خان کے جیل بھرو تحریک کے اعلان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جن کی دو دن میں جیل میں رہ کر آنکھیں بھر جائیں وہ جیلیں نہیں بھرا کرتے۔ آپ کو جیل بھرو نہیں ڈوب مرو تحریک شروع کرنی چاہیے۔ ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ جیل بھرو تحریک کی وہ بڑھکیں مار رہا ہے جو چار ماہ سے زخم پہ پلستر باندھ کے کارکنوں کے حصار میں بکتربند زمان پارک میں چھپا بیٹھا ہے۔ مریم اورنگزیب نے یہ بھی کہا کہ جیل بھرو تحریک میں قیادت سب سے پہلے گرفتاری دیتی ہے۔ اس طرح بیماری کا بہانہ بنا کر چھپ کر نہیں بیٹھتی۔ پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات کے ساتھ موجود وزیراعظم کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ عمران خان جیل بھرو تحریک کے اعلان پر بھی یو ٹرن لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک سے پہلے چار دن کے لیے جیل جانے والوں کا رونا تو بند کرائو۔ جیل جانے کا شوق ہے تو ضمانتیں کیوں کرا رہے ہیں؟ 
کھینچا تانی اور گرما گرمی کے اس ماحول میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے یہ معقول بات کہی ہے کہ پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے، سب کو اجتماعی کوشش کرنا ہوگی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس بات پر عمل کب اور کیسے ہوگا کیونکہ موجودہ صورتحال میں اگر کسی ایک طرف سے کوئی اچھی تجویز آتی بھی ہے تو دوسری جانب سے اسے نہ صرف رد کردیا جاتا ہے بلکہ اس کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ یہ وقت جیل بھرو تحریک کی بجائے ملک سنبھالو تحریک چلانے کا ہے اور یہ تحریک کسی ایک سیاسی جماعت یا شخصیت کو نہیں بلکہ سب کو مل کر چلانی چاہیے کیونکہ ملک ایسے حالات گزر رہا ہے جہاں دیوالیہ پن کے سائے ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں اور عوام بے بسی کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ایما پر آئندہ دنوں میں مہنگائی مزید بڑھنے کے امکانات صاف دکھائی دے رہے ہیں اور یہ صورتحال ہر سیاسی جماعت اور شخصیت کے لیے بے چینی کا باعث ہونی چاہیے۔ پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کی بجائے سب کو مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل کے ذریعے اس صورتحال سے نکلنے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن