کڑوی گولیاں


ملکی معاشی صورتحال،زرمبادلہ کے ذخائر اور خوفناک مہنگائی نے پورے نظام کو ہلا کررکھ دیاہے۔ معیشت کو ڈی ریل کرنے والوں کا تو ابھی تک احتساب شروع نہیں ہوا مگر عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری کی شکل میں ہرروز اس کی قیمت چْکا رہا ہے۔شہر اقتدارمیں آئی ایم ایف کی ٹیم کڑے مطالبات کے ساتھ ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرکے پہلے معاہدہ کیا اور پھر گذشتہ سال اقتدار کی رْخصتی بھانپتے ہوئے معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مقصد صرف ایک تھا کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود عوام کو سستا پٹرول فراہم کیا جائے۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں کو بھی منجمند رکھا جائے تاکہ عوام حکومت کے گْن گائیں۔  پی ٹی آئی حکومت نے وقتی عوامی تائید تو حاصل کرلی مگران کے نتیجے میں جو بارودی سرنگیں  بچھا دی گئیں  ان سے عوام محفوط ہیں،حکومت اور نہ ہی اپوزیشن۔ تمام مالیاتی ادارے اور دوست ممالک پاکستان کی امداد کرنے کا اعلان کرنے کے بعد ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے ہیں کہ پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کریں پھر پاکستان کی امداد کریں گے۔
ایسے حالات میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے سامنے حکومت مکمل طور پر بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم کی کڑی شرائط حکومت مان لے تو رہی سہی عوامی حمایت بھی ختم ہوتے دکھائی دینے لگتی ہے۔۔ نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف وفد نے 31 جنوری کو نویں جائزے کی تکمیل پر حکومت کے ساتھ حتمی مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔بڑے مالیاتی خلا کی نشاندہی اور اسے پْر کرنے کے طریقوں پر چار روزہ بات چیت اسلام آباد میں ہوئی جس میں 7 سے زائد محکموں کے نمائندے موجود تھے۔مذاکرات میں اخراجات کی تفصیلات اور آمدن کی کارکردگی پر گفتگو ہوئی تا کہ موجودہ مالی سال کے آئندہ 4 ماہ کے دوران لیے جانے والے ریونیو اور غیر ریونیو پالیسی اقدامات کی نشاندہی کی جاسکے۔ آئی ایم ایف کا سب سے مشکل مطالبہ بجلی کے لائف لائن یعنی 300 یونٹ سے کم خرچ کرنے والے صارفین کا استثنیٰ ختم کرنا ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں پاکستان کے 88 فیصد بجلی کے صارفین 300یونٹ ماہانہ کی کیٹگری میں شامل ہیں۔ بجلی کی قیمت میں اضافے سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوگا۔آئی ایم ایف کی ٹیم کو وزارت خزانہ کی جانب سے درمیانی راستہ نکالتے ہوئے یونٹ کی حد کو 300 سے کم کر کے 200 کرنے کی تجویز دی گئی مگرآئی ایم ایف اس تجویز کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کی نظر میں معیشت کو سب سے بڑا خطرہ توانائی کے شعبے کی خراب کارکردگی سے ہے جس کا گردشی قرض 29 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔اس رقم میں مزید اضافہ آئی ایم ایف کے لیے باعث تشویش ہے۔ اور امکان ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے جائیں گے جس میں برآمدی صنعتوں کو توانائی پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔صنعتکار پہلے ہی توانائی کی سبسڈی کے ممکنہ خاتمے پر اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں لیکن آئی ایم ایف نہ صرف بڑی مقدار میں گردشی قرض میں کمی چاہتا ہے بلکہ اسے دوبارہ بڑھنے سے بھی روکنے کا خواہاں ہے۔آئی ایم ایف کا ایک اور بڑا مطالبہ ڈیزل پر موجودہ پیٹرولیم لیوی 40 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرنا ہے جو 15 فروری کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے متوقع اعلان میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ملکی تاریخ کا یہ سب سے  کڑا اور خطرناک شرائط کیساتھ معاہدہ تولازمی کرنا پڑے گا مگراس صورتحال سے نکلنے اور دوبارہ اس گڑھے میں گرنے سے بچنے کیلئے  ابھی سے کچھ کرنا ہو گا بصورت دیگر سب کو خوفناک نتائج کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اب کام ایک کڑوی گولی سے نہیں بلکہ کڑوی گولیوں کے کئی ڈبوں سے حل ہوگا مگر یہ گولیاں صرف عوام نہیں بلکہ حکمرانوں اور اشرافیہ کو بھی کھاکر عوام کے دْکھوں کا مداواکرنا پڑے گا۔ 
حالیہ اعلی سطحی اجلاس کے دوران کچھ وفاقی وزراء نے احتجاج کیا ہے کہ حکومتی شخصیات نمائشی پروٹوکول کی آڑ میں عوام کے غم وغصے میں مزید اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کابینہ ارکان اسی پروٹوکول کے چکرمیں قومی پرچم کی توہین میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔حکومتی شخصیات کی گاڑیوں پر غروب آفتاب کے بعد پرچم لہرا کر توہین کی جارہی ہے۔ مشیران اور معاون خصوصی کا  گاڑیوں پر قومی پرچم لہرانا فلیگ رولز کی خلاف ورزی ہے۔ صرف وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت اپنی گاڑیوں پر قومی پرچم لہرا سکتے ہیں۔سیکورٹی کے نام پر گاڑیوں کے بڑے قافلوں کی بجائے متبادل اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے قومی کفایت شعاری کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ  15 روز میں پروٹوکول میں کمی اور قومی پرچم کے لہرانے سے متعلق سفارشات پیش کی جائیں۔ 
اسی طرح توشہ خانہ پالیسی کے ذریعے بھی کچھ موثر اقدامات کی تیاری کرلی گئی ہے جس سے مال مفت دل بے رحم کا تصور ختم ہونے کے قریب پہنچ گیاہے۔ نئی پالیسی کے تحت غیرملکی سربراہان سے کروڑوں روپے مالیت کی گھڑیاں اور لگژری گاڑیوں کے تحائف وصولی پرپابندی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ غیرملکی سربراہان سے 500ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ لینے پر پابندی عائد ہوگی۔یہ تجویز سابق سیکرٹری کابینہ ڈویژن سرداراحمد نواز سکھیرا نے امریکی صدر سمیت دیگر عالمی رہنمائوں کے لئے وضع کردہ اصول کی روشنی میں پیش کی تھی جسے پانچ ماہ کی لیت ولعل کے بعد بالآخر کڑوی گولی سمجھ کر قبول کیا جارہاہے۔ نئی پالیسی میں مفت تحفہ گھر لے جانے کا راستہ اگرچہ ہموار کرلیا گیا ہے مگر ایسے تحفے کی مالیت 30 ہزار روپے تک ہونا شرط رکھی گئی ہے۔ وزیراعظم نے دونوں تجاویز توشہ خانہ پالیسی میں شامل کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔ اس کے ساتھ گذشتہ 20 سالوں کا توشہ خانہ کے تحائف کا ریکارڈ پبلک کیا جائے گا۔ تحائف کی اصل مالیت کا تعین کرنے کے بعد آکشن ہوگا اور آکشن سے وصول ہونے والی رقم بیت المال یا فلاحی تنظیموں کو دی جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن