بڑے نصیبوں والے عمران خان


ہر بندہ عمران خان کے سے نصیب لے کر کہاں آتا ہے ۔ اتنی محبوبیت اور اتنی مقبولیت ۔ خط پتر کے زمانہ میں کچی عمر کی لڑکیاں اپنے خط میں یہ شعر ضرور لکھتی تھیں :
شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دونگی 
خط کا جواب نہ آیا تو لکھنا ہی چھوڑ دونگی 
ایک انٹر ویو میں عمران خان سے پوچھا گیا ۔ آپ کا سب سے نا پسندیدہ شعر ؟ بولے۔ شیشی بھری گلاب کی ۔ مختصر جواب سے بے پایاں محبوبیت کے باعث جھنجھلاہٹ عیاں تھی۔ 
ان کی پہلی بیوی جمائما اسلامی اقدار رکھتی ہیں۔ عزت، آبرو اور سلیقہ سے علیحدگی ۔ عمران خان سے علیحدگی کے بعد وہ پاکستان کو دل میں بسائے بیٹھی ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ اجڑے پجڑے پاکستان اور پاکستانیوں سے ہمدردی رکھتی ہیں اپنے سابقہ سسرال اور بچوں کے ددھیال سے نفرت نہیں۔ دوسری بیوی ریحام خان عین پاکستانی ثابت ہوئی ہیں۔ اس نے طلاق کے بعد ایک کتاب  لکھی ۔ اس میں کچھ سچی ، کچھ مچی اور کچھ من گھڑت باتیں ہیں۔ ن لیگ نے کتاب کا بہت رولا ڈالا۔ لیکن نہیں پڑھی گئی یہ کتاب ۔ ہم کتابیں پڑھنا ترک کر چکے ہیں۔ نصابی کتابوں سمیت سبھی کتابیں ہماری زندگی سے خارج ہو چکی ہیں۔یہ گیٹ تھرو گائیڈ کا زمانہ ہے ۔ اخبارات میں ریحام خان کی کتاب سے ٹوٹے شائع ہوتے رہے ۔ لوگ دیکھتے رہے ۔ اب ریحام خان سوشل میڈیا پرٹرولنگ کے ہاتھوں پریشان ہے ۔ کہتی ہے ، اپنے پیج پر چاکلیٹ اور کیک کی تصویر بھی لگائوں تو گالیاں پڑتی ہیں۔ دلکش ریحام خان کو عمران خان کے مداحوں نے ریجیکٹ کر دیا ہے ۔ پھر ان کی زندگی میں تیسری بیو ی آتی ہیں۔ حجاب ۔ تصوف ۔ پاکپتن شریف۔ لیکن یار لوگ اس داستان میں عدت ، توشہ خانہ اور فحش ویڈیوز لے آئے ہیں۔ فرح بی بی اور عون چوہدری بھی مہمان اداکار کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ آدھے لوگ ان تمام خرافات کو جھوٹ گردانتے ہیں ، باقی آدھے پوری دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ اگر یہ سب کچھ سچ بھی ہے تو پھر کیا ہے ؟ سب چلتا ہے ۔ دوسرے دودھوں دھلے تھوڑی ہیں۔ 
اب عقل کے اندھے بھی جانتے ہیں کہ 2018 ء میں عمران خان کو اصلی حکمران ہی اقتدار میں لائے تھے ۔ پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ہوتا چلا آرہا ہے ۔ بھینس تماشا ۔ایوان صدر کی گاڑیوں کی نیلامی ۔ گورنر ہائوس کی دیواریں نہ گرانے کیلئے عدالتوں کا حکم امتناعی وغیرہ وغیرہ ۔پھر اک نا اہلیت تھی جس کا ہر سو ڈیرہ تھا۔ شریفوں کی حکومت میں ڈپٹی کمشنر ی کی قیمت کا کبھی ذکر سننے میں نہ آیا۔ اب ڈپٹی کمشنری کی پوسٹ کی قیمت کا ذکر لوگوں کی زبان پر عام تھا۔ شریفوں کی انتظامیہ پر گرپ بڑی مضبوط رہی ۔ شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ کالم نگار میرین ہوٹل گوجرانوالہ ایک افطار پارٹی میں اذان کا منتظرتھا۔ ایک ویٹر پاس آیا اور اونچی اونچی رونے لگا ۔ اس کی بہن تین ماہ قبل اغواء ہوئی تھی ۔ پولیس نامزد ملزمان کو گرفتار نہیں کر رہی تھی ۔ یہ ویٹر کالم نگار سے پولیس کے خلاف ایک کالم کی فرمائش کر رہا تھا۔ کالم نگار نے ’’شہباز شریف کا ہیلی کاپٹر کہاں ہے‘‘کے عنوان سے ایک کالم لکھ دیا۔ آٹھ پہر میں مغویہ اپنے گھر پہنچ چکی تھی اور ملزمان حوالات میں بند ہو گئے تھے۔ میاں شہبازشریف کو صرف حبیب جالب کی شاعری ہی پسند نہ تھی ، غربت بھی ان کا محبوب موضوع تھا۔ایک مرتبہ ملاقات کیلئے آئے ہوئے علماء کے ایک وفد سے پوچھنے لگے ۔ آپ اس قیامت کا بہت ذکر کرتے رہتے ہیں جو مرنے کے بعد آنی ہے ۔ وہ قیامت کیوں بھول جاتے ہیں جو غریب لوگوں پر اس دنیا میں گزرتی ہے ۔ کالم نگار نے یہ خبر پڑھی تو لکھا۔ کالم نگار نہیں جانتا کہ علماء نے میاں شہباز شریف کے سوال کا کیا جواب دیا۔ لیکن وہ اس قیامت کا کیا کرے جو اس کے دل پر یہ خبر پڑھ کر گزری ہے کہ میاں شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز نے بیرون ملک سے ایک برفانی چیتا منگوایا ہے ۔ کالم نگار سوچ رہا ہے کہ اب بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں مبتلا اس ملک میں اس چیتے کیلئے ایک برفاب گھر بنایاجائیگا۔پھر کتنی بجلی ضائع ہوگی اس برفانی چیتے کیلئے۔ اگلے روز میاں شہباز شریف کے سیکرٹری کا فون تھا کہ میاں صاحب آپ کے کالم کے شکر گذار ہیں اور چیتا ایبٹ آباد کی پہاڑیوں پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ادھرحالت یہ رہی کہ عمران خان کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو پوراعرصہ انتظامیہ یہ باور کروانے میں ناکام رہی کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔ تحریک انصاف عمران خان سے شروع ہو کر عمران خان پر ہی ختم ہو جاتی ہے ۔تین سوا تین سالہ حکومت کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف اپنی غیر مقبولیت کے پاتال میں کھڑے تھے ۔ عمران خان کے’’ چیتے‘‘ منہ چھپائے پھرتے تھے ۔ پھر عمران خان کے نصیب یوں جاگے کہ قمر جاوید باجوہ کا آرمی کی سربراہی سے جی نہ بھرااور وہ پھر ایکسٹینشن کے چکر میں پڑ گئے۔ لیکن اب عمران خان ان کی بجائے اپنے ایک اور پسندیدہ بندے کوآرمی چیف بنانا چاہتے تھے ۔پھریوں ہوا کہ قمر جاوید باجوہ اور پی ڈی ایم نے مل جل کر تحریک انصاف کی غیر مقبول حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ میاں شہباز شریف نے ایک ایسے وقت میں حکومت سنبھال کر جب سب کو معلوم تھا کہ اب معیشت مشکل ترین فیصلوں کے بغیر نہیں سنبھل سکتی ،عمران خان کو عوامی مقبولیت کی معراج پر پہنچا دیا۔ آج حالت یہ ہے کہ لوگ بھول چکے ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے کیا گل کھلائے تھے۔اب وہ مقبولیت کی انتہائی بلندیوں پر کھڑے ہیں۔ اتنے مقبول ہیں کہ الیکشن میں ان کی جیت کے خوف سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہو رہا۔ابھی ان سے معاملات طے نہیں پا رہے ۔ آخر کار طے پا ہی جائیں گے ۔ سیاستدان ، سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔ انہیں اقتدار چاہئے ، لولا لنگڑا جیسا بھی مل جائے ۔ پھر اقتدار سے محرومی پر انہیں یہ ماننے میں بھی کچھ عار نہیں ہوتا کہ اقتدار ضرور ملا تھا لیکن اختیارنہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن