بھارت ایک قبضہ مافیا


بچپن سے جب ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھتے سنتے چلے آرہے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔آزادکشمیر کے نزدیک گائوں ہونے کی وجہ سے  اوائل عمری سے ہی وہاں آنا جانا لگا ہوا ہے۔آزاد کشمیر میں دیواروں پربھی ایسے ہی  اشتہار لگے دیکھا کرتے تھے۔کوئی بھارت کو چیر دینے کی بات کرتا کوئی کسی اور طرح کا نعرہ ایجاد کرلیا کرتا،لیکن کشمیر آزاد تو کیا ہوتا۔بھارت کشمیر پر اقوام متحدہ میں کیے گئے وعدوں سے بھی مکر چکا ہے۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ہر سال اپنے کاروبار تعلیمی اور سرکاری ادارے بند کر کے کچھ ’’کشمیر ڈے‘‘منا کے ایک رسم منا رہے ہیں۔کہیں کوئی دانشور یا تھنک ٹینک ایسا نہیں دیکھنے میں آرہا جو عوام،میڈیا، سیاست دانوں اور حکمرانوں کو یہ نقطہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ قبضے طاقت سے ہوتے ہیں اور طاقت سے ہی ختم ہوا کرتے ہیں۔ہمیں اپنے ملک سے بھی بہت پیار ہے، عسکری قوت پہ بھی مان ہے۔ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل سسٹم بھی پاکستان کو تگڑی پہچان دیتے ہیں۔لیکن جس پاکستان نے اسلام کا قلعہ بننا تھا جس پاکستان نے کشمیریوں کو آزادی دلانی تھی وہ پاکستان تو حقیقتاً آج اپنی ہی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔عالمی مالیاتی اداروں نے ساری دنیا کو ہی اپنا مقروض بنایا ہوا ہے۔دنیا میں بہت سے ملک ہیں جو پاکستان سے بھی زیادہ مقروض  ہیں لیکن وہ دنیا میں عزت و شان سے جی رہے ہیں۔باقیوں کو چھوڑیں بھارت کی بات کرتے ہیں۔بھارت کے ذمہ واجب الادا قرض پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔لیکن بھارت کے دیوالیہ ہونے کی بات کہیں نہیں ہورہی ہے۔ہم مانیں یا نہ مانیں بھارت ایک بڑی عسکری طاقت ہے۔لیکن بھارت میں سیاسی نظام اس قدر مضبوط ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ان کے سیاستدان اسمبلیوں میں ایک دوسرے کے گریبان پکڑلیں۔کرپشن کی کہانیاں بھارت میں بھی غضب کی ہیں لیکن وہاں جمہوری نظام چل رہا ہے۔وہاں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ریاستی نظام بھی چلتا رہتا ہے۔یعنی حکومت کوئی بھی ہو پہلے سے کیے گئے وعدوں کا پاس رکھا جاتا ہے۔سیاحت کو بھارت میں اتنی ترجیح دی گئی ہے کہ دنیابھر سے ہر سال کروڑوں سیاح بھارت کا رخ کرتے ہیں۔سائنسی میدان میں بھارت اتنا مضبوط ہے اس کے سائنسدان آج ناسا اور دنیا کے تمام بڑے سائنسی پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں ، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں وہ باقی دنیا کو پچھاڑنے کی بات کر رہے ہیں ، آج بنگلور، چنائے اور جے پور کی آئی ٹی ایکسپورٹس سو سو ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ سماجی رابطوں کی سبھی ایپس پر بھارتی چھائے ہوئے ہیں۔
صاحبو! ریلیاں،سیمینارز اور اپنے ہی ملک کی سڑکیں اور کاروبار بند کرنے سے مقبوضہ کشمیر کبھی بھی آزاد نہیں ہوسکتا۔ہم اگر واقعی کشمیر آزاد کروانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنی پڑے گی۔پہلے پاکستانیوں کو اخلاقیات،اقدار اور روایات کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن اپنی اپنی پارٹیوں پر آمروں کی طرح مسلط ہیں۔اصل نقطہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں قبضے طاقت سے ہوا کرتے ہیں اور پھر جوابی طاقت سے ختم کروائے جاتے ہیں۔اگر کشمیر واقعی آزاد کروانا ہے تو پاکستان کو سیاسی،معاشی، عسکری اورانتظامی  شعبوں میں مضبوط کرنا ہوگا۔ملکی معیشت کی بہتری تب ہی ممکن ہوسکتی ہے جب خام مال کی امپورٹ پر ٹیکس کم ہو اور کارخانوں،فیکٹریوں کو مناسب قیمتوں پر بجلی گیس مہیا کرنے کی پلاننگ کی جائے گی۔ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی، لوگوں کو تعلیم ، صحت اور قانون کا تحفظ دینا ہو گا ، ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہو گا جہاں سب برابر ہوں اور قانون کی حکمرانی ہو، لوگوں کے ذہنوں میں ڈر کی بجائے تخلیق ہو، نوجوان چوری ڈکیتی کی بجائے موثر کاروباری آئیڈیاز پر کام کریں۔ تمام بچے سکولوں میں جائیں ، خواتین کے لئے اپنا ملک اپنے گھر جیسا محفوظ ہو ۔سیاست دان،حکمران ریاست سے محبت اور وفا داری کے عہد یوں پورا کریں کہ اپنا پیسہ اور اولادپاکستا ن میں ہی رکھیں۔ سیاست دان، سرکاری ملازمت پیشہ افراد اور کوئی عوامی عہدہ رکھنے والے کے بچے سرکاری سکولوں میںتعلیم حاصل کریں اور ان کا علاج بھی سرکاری ہسپتالوں میں لازم ہو  ۔پھر حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایسا ٹیکس نظام شروع کیا جائے کہ ملک کا ہر شہری ریاست کو خوشی سے ٹیکس دینا چاہے۔
ہماری فوج اسلامی دنیا کی سب سے مضبوط فوج ہے اور اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی خارجی دشمن کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن جنگیں فوج نہیں قومیں جیتا کرتی ہیں۔تو پھر آئیے ہجوم سے قوم بننے کا سفر شروع کریں۔ہر ادارہ،ہر محکمہ اور زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ لوگ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا عہد کریں۔آخری بات یہ کہ صرف معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط پاکستان ہی کشمیریوں کو آزادی دلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔نعرے لگانے سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی خواب ہی رہے گی۔ہمیں عملاً خود کو اتنا مضبوط اور طاقتور کرنا ہو گا کہ جیسے چین نے بھارت سے اپنے متعدد علاقوں کو آزاد کرایا ہے ویسے ہی ہم بھی کرا سکتے ہیںکیونکہ قبضے صرف طاقت سے چھڑائے جا سکتے ہیںجس کے لئے دور اندیش سیاسی بصیرت اور مضبوط معیشت لازمی جزو ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن