تیرا منڈا بگڑا جائے
فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
دور حاضر کی ایجاد سوشل میڈیانے آج کل دھوم مچائی ہوئی ہے۔ہر ایجاد کی طرح اس کے بھی فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔معلومات کا خزانہ ہے،اس کی وجہ سے دنیا حقیقی معنوں میں گلوبل ویلج بن گئی ہے، سستی تفریح ہے اور سب سے بڑھ کرفردکو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کر رہا ہے۔من حیث القوم ہم فوائد کی بجائے نقصانات کے حصول کی کوشش کرتے ہیںاس لیے اس ایجاد کو بھی قوم منفی انداز میں استعمال کر رہی ہے۔بد اخلاقی،بے ہودگی،فحاشی،یاوہ گوئی کی حدیں عبور کی جارہی ہیں۔گھٹیا اور لچر پوسٹوں کو دیکھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہونے سے عوام کے عمومی ذوق اور تربیت کابخوبی انداہ لگایا جاسکتا ہے۔بے حیائی اور بد اخلاقی کے اتنے نقصانات نہیں لیکن بات اب مذہبی اور قومی اقدار پر حملوں تک پہنچ گئی ہے جو قومی وحدت کو کمزور کر رہی ہے، ملک کی نظریاتی سرحدوں کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے اور عوام میں مایوسی پیدا کر رہی ہے۔یوں دانستہ اور نادانستہ طور پر دشمنان دین و ملت کے مذموم مقاصد کی تکمیل کی جارہی ہے۔ان ساری حرکتوں میں دانا دشمن تو ہیں ہی نادان دوست بھی بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔سیکولر ذہنیت کے حامل دیسی لبرلز اور مبینہ دانشور اپنی دانشوری کا مظاہرہ کرنے کی دوڑ میں اسی شاخ کو کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیںجس پر ان کا بسیرا ہے۔ان سخن فروشوں نے ات مچائی ہوئی ہے۔اس فتنہ کی بد اخلاقیاں اور سر مستیاںحد یں پار کر رہی ہیں۔اللہ پاک ان کو ھدایت دے یا پھر یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
زندہ قومیں اپنی مذہبی ،اعلی اخلاقی، ملی اور قومی اقدار کی حفاظت کرتی ہیںکیونکہ یہ اقدار ان کی سلامتی کا سبب ہیں۔کسی بھی تہذیب کی بنیاد اخلاقیات پر قائم ہوتی ہے اگر اخلاقیات نہ رہیں تو عمارت کیسے رہ سکتی ہے ۔گھٹیا تفریح اورہنسی مذاق کے لیے ان کی پامالی کی بالکل اجازت نہیں جا سکتی۔معاشرہ کی تباہی اور بربادی روکنے کے لیے اس کے آگے بند باندھنا ضروری ہے۔