لڑکیوں کو تعلیم کے حصول سے روکنا پشتون نہیں، طالبان کا کلچر ہے : ملالہ یوسفزئی

 نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنا پشتونوں کا نہیں طالبان کا کلچر ہےاقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کے بیان پر ردعمل میں لکھے گئے مضمون میں ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ایک پشتون خاتون، پاکستانی اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے مجھے ان کے بیان سے سختی سے اختلاف ہے ، سفیر منیر اکرم نے معذرت تو کر لی ہے مگر انہوں نے بیان میں طالبان کے خواتین سے غیرانسانی سلوک کی ذمہ داری پشتون ثقافت پر ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ملالہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان اپنے مقاصد کے لیے عقیدے اور ثقافت کو توڑ مروڑ کر بیان کر تے ہیں، لیکن وہ اکیلے ہی اپنے زیر تسلط ملک میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کی ذمہ دار ہیں ۔

ملالہ یوسفزئی نے مزید کہا کہ میں ان بہت سے پشتونوں میں سے ایک ہوں جنہوں نے لڑکیوں کی تعلیم، صنفی مساوات اور معاشرے میں امن کے دفاع کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال دیں، دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں کی طرح  ہماری خواتین اور لڑکیوں کو اب بھی بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے، ان کے حقوق کو مردوں نے محروم رکھا ہے لیکن جس طرح لوگ ثقافت بناتے ہیں  اسے بدل بھی سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم افغانستان اور پاکستانی معاشرے میں صنفی مساوات کے لیے مل کر کام کرنے والے خواتین اور مردوں میں اس تبدیلی کو دیکھ سکتے ہیں، ہم ترقی کر رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں، یہاں تک کہ طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ ہمیں پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ میں افغانستان کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بیان دیا تھا کہ طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کا تعلق مذہب سے زیادہ پشتون ثقافت سے ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ پشتون ثقافت میں خواتین کا گھر میں رہنا ضروری ہے اور یہ ثقافتی حقیقت سیکڑوں سال سے نہیں بدلی ہے۔بعدازاں مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد پاکستانی مندوب منیر اکرم نے اپنے بیان پر معذرت کر لی تھی ، اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میرے تبصروں سے ہونے والی تکلیف کیلئے معذرت خواہ ہوں ، میرے الفاظ پاکستان کی صحیح عکاسی نہیں کرتے، خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم کے حصول سے روکنا نا اسلامی کلچر ہے اور نہ ہی پختون کلچرہے۔

ای پیپر دی نیشن