آٹھ فروری آٹھ بجے تک

انتخابی مہم ختم ہونے میں صرف ایک دن جبکہ انتخابات کے انعقاد میں دو دن بچے ہیں لیکن اب بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابات آٹھ فروری کو ہو رہے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ کی طرف سے واضح طور پر پہلے ہی روز یہ کہہ دیا گیا تھا کہ انتخابات آٹھ فروری کو ہونا پتھر پر لکیر ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم جاری کیا گیا تھا کہ میڈیا میں اس پر کسی قسم کا شکوک و شبہات پھیلانے والا تبصرہ نہیں ہوگا۔اس سب کے باوجود بھی انتخابات کے حوالے سے شکوک و شہبات کا نہ صرف یہ کہ میڈیاپر تذکر ہ ہوتا رہا بلکہ سینیٹ میں ایک نہیں دو قراردادیں پیش کرکے ایک منظور بھی کروا لی گئی۔پہلی قرارداد تو منظور ہو گئی دوسری خیر منظوری کے مرحلے تک نہیں پہنچ سکی۔ اس پر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا جو انتخابات کی مخالفت نہیں کر رہی تھیں جو انتخابا ت کی مخالفت کر رہی تھیں ان ہی کی ایما پر قرارداد پیش ہوئی اور منظور بھی ہوئی۔ دوسری قرارداد اس کے باوجود پیش کر دی گئی کہ پہلی قرارداد کی شدید مخالفت ہو رہی تھی۔یہاں یہ بھی ہوا کہ نہ صرف پہلی قرارداد منظور ہوئی اس پر شدید ردعمل آنے کے باوجود بھی اس قرارداد کے محرک کی طرف سے سینیٹ کے چیئرمین کو خط لکھا گیا کہ اس قرارداد پر عمل دراآمد کروایا جائے۔ اس سے اندازہ کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے لوگ کتنے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ہیں لیکن ان کی پیش نہیں چل سکی۔مگر سوال یہ ہے کہ ان کی ابھی تو پیش نہیں چل رہی تو کیا یہ پکے پکے بے بس ہو گئے ہیں؟ یا ان کی طرف سے پس منظر میں رہ کر اب بھی گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں۔لگتا ہے انہوں نے سرنڈر نہیں کیا۔
 انتخابات کا شیڈول جاری ہو چکا تھا، انتخابی سرگرمیاں پہلے کچھ ٹھنڈی رہی اب جب کہ انتخابات کے انعقاد میں صرف دودن باقی بچے ہیں،مگر اس طرح سے انتخابی ماحول نہیں بن سکاجس طرح سے عمومی طور پر ان دنوں بلکہ اس سے ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے ہوتا ہے۔
 اس وقت تک لوگ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب تک کہ ان کے ہاتھ میں بیلٹ پیپر پرلگانے والی مہر کا ٹھپہ نہیں آجاتا۔جوآٹھ فروری کو صبح آٹھ بجے آنا ہے۔ 
جب تک انتخابات کا انعقاد نہیں ہو جاتا۔صورت حال ایسی بن چکی ہے کہ اس وقت تک یقین نہیں آ رہا کہ انتخابات ہو جائیں گے۔ یقین نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کی طرف سے واضح طور پر احکامات جاری کر دیئے گئے، پتھر پر لکیر قرار دے دیا گیا ،منع کر دیا گیا کہ میڈیا پر اس پر بات نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود بھی میڈیا پر کچھ پارٹیوں کی طرف سے باقاعدہ مہم چلائی جاتی رہی جو اب بھی جاری ہے اور پھر انتخابات کو سبوتاڑ کرنے کے لیے ،ان کو موخر کرنے کے لیے نہ صرف اندرونِ ملک سازشیں ہوتی رہی بلکہ بیرون ملک بھی کچھ ہاتھ اس میں ملوث نظر آئے۔ یا ان ہاتھوں کو کسی نے استعمال کیا۔جیسا کہ اچانک بیٹھے بٹھائے ایران کی طرف سے پاکستان پر یلغار کر دی گئی۔ پاکستان نے اس کا جواب دیا۔گو کہ معاملہ زیادہ نہیں بڑھا، یہ دانشمندی ہے ہمارے اداروں کی ،ریاست کی کہ صورت حال کو بہت جلد کنٹرول کر لیا گیا لیکن حالات کو خراب کرنے والے کی نیت تو واضح ہو گئی اور پھر ایک عرصے سے لاپتا افراد کے حوالے سے احتجاج ہو رہے ہیں،مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن اچانک سے اسلام آباد میں عین اس دوران جب انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار ہو رہا تھا ایک قافلہ بلوچستان سے آکر بیٹھ گیا۔یہ بھی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک کوشش تھی، منصوبہ بندی تھی، سازش تھی۔ اس سے بھی پاکستان نکل گیا، یہ لوگ اس وقت واپس چلے گئے جب پاکستان کی طرف سے ایران کو جواب دیتے ہوئے سیستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو حملہ کرکے مار ڈالا گیا، سات دہشت گرد اس میں ہلاک ہوئے، ان میں سے کچھ وہ بھی تھے جن کو لاپتا قرار دے کر اسلام ا?باد میں مظاہرے ہو رہے تھے۔ اور پھر بھارت کی طرف سے تو ہمیشہ ہی پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا جاتا رہا ہے۔ بھارت اپنی جگہ پر انتخابا ت کو سبوتاڑ کرنے کے لیے سازشیں بنتا رہا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات ہونے لگے، جس طرح سے مچھ اور اردگرد کے علاقوں میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی ہوئی ،تین چار روز میں تیس دہشت گردوں کو فورسز کی طرف سے ہلاک کیا گیا۔ ابھی تک کلیئرنس  آپریشن جاری ہے۔
پاکستان کی بقا، ترقی اور خوشحالی بلاشبہ جمہوری عمل میں مضمر ہے اور اس کے لیے انتخابات کا انعقاد مقررہ وقفے کے بعد ہونا لازم ہے، ناگزیر ہے۔ مگر بوجوہ جو انتخابات اکتوبر 2023ء￿ میں ہونے تھے وہ 2024ء￿ تک آ چکے ہیں اور ان کو بھی کچھ قوتیں موخر کروانا چاہتی ہیں۔ آٹھ فروری کے انتخابات پر بدستور ابہام کے سائے لہرا رہے ہیں۔ انتخابات اگر آٹھ فروری کو ہو جاتے ہیں تو یہ ریاست کے عزم و ارادے کے باعث ہی ہوں گے ورنہ تو جمہوریت مخالفت قوتوں کی طرف سے انتخابی عمل کو اور انتخابات کے انعقاد کو سبوتاڑ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
قارئین۔ انتخابات موخر کروانے کی آخری کوشش اس وقت کی گی جب پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور ان کی اہلیہ کے اوپر قائم دو صد سے زائد مقدمات میں تین مقدمات کو فائنل کیا گیا
اور سابق حکمران جوڑے کو اکتیس ، اکتیس سال کی سزا سنا کر بظاہر الیکشن گیم سے آوٹ کر دیا گیا ، کہ ان حالات میں سابق حکمران جوڑا پھر کوئی 9 مء جیسی حرکت کر بیٹھے یا کم از کم الیکشن کا بائیکاٹ کر دے مگر ابھی تک ایسا کوئی اشارہ مذکورہ فیملی کی طرف سے نہیں ملا ، لہذا مندرجہ بالا حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ توقع اور پشین گوئی کی جا سکتی ھے کہ ابھی تک کی الیکشن ملتوی کروانے کی ہر شازش ناکام ثابت ھوئی ھے ، قارئین۔ دعا کیجئے کہ آئیندہ چند گھنٹے بھی آرام سے گزر جائیں تاکہ اعلی عدالت کی طرف سے پتھر پر لکیر کا قول و جذبہ سچ ثابت کیا جا سکے ! اور اراکین منتخب کرنے کا خواب بیل منڈھے چڑھنے کے مصداق پورا ھوتا نظر آئے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن