ہمارے ہاں انتخابات کی تاریخ کچھ زیادہ دِل خوش کْن نہیں۔ 1956ء کے آئین کے تحت پہلے عام انتخابات کی مہم زوروں پر تھی کہ پہلے مارشل لاء نے آن لیا۔ کوئی گیارہ برس پہ محیط یہ رات تھک گئی تو اپنی متعّفن میراث تازہ دم شبِ آمریت کو سونپ کر گھر چلی گئی۔1970ء کے انتخابات پاکستان کو دولخت کر گئے۔1977ء کے انتخابات ایک اور گیارہ سالہ مارشل لاء دے گئے۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات سے 1999ء تک پانچ انتخابات سے جنم لینے والی پانچوں حکومتیں ریت کے گھروندے ثابت ہوئیں۔ منتخب وزرائے اعظم، تْند خو مالکہ کی خادمائوں کی طرح آتے اور نکالے جاتے رہے۔ 2008ء سے 2013ء اور 2013ء سے 2018ء تک دو حکومتوں نے اپنی معیاد پوری کی لیکن دونوں وزرائے اعظم، آرٹیکل 62/63 کے تحت عہدوں سے فارغ کردئیے گئے۔ آج پچیس تیس سال کی عمر کے جوانوں اور اْن سے زیادہ عمر کے تمام افراد نے ہماری سیاسی تجربہ گاہ میں ڈھلی ہمہ رنگ حکومتوں کو دیکھ لیا ہے، پرکھ لیا ہے اور بھگت لیا ہے۔ دو دِن بعد گھر سے نکلتے وقت کسی بھی ووٹر کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنا، اپنی آنے والی نسلوں اور پاکستان کا مستقبل کس کو سونپے۔
2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بھوربن میں ایک معاہدہ طے پایا۔ واحد شرط یہ تھی کہ مشرف کے عتاب کا نشانہ بننے والے ججوں کو حکومت قائم ہونے کے بعد تیس دنوں کے اندر اندر بحال کردیا جائیگا۔ زرداری یہ کہتے ہوئے منحرف ہوگئے کہ ’’اِس طرح کے عہد نامے کوئی قرآن وحدیث نہیں ہوتے۔‘‘ ججوں کی بحالی میں ایک سال لگ گیا وہ بھی اْس وقت جب نوازشریف کالانگ مارچ سڑکوں پہ نکل آیا۔ پیپلزپارٹی کی جمہوریت نوازی یہ کہ فروری 2009ء میں پنجاب میں گورنر راج نافذ کرکے شہبازشریف کو فارغ کردیا۔ اٹھارہویں ترمیم تمام پارلیمانی جماعتوں کا مشترکہ مطالبہ تھا جس کیلئے ایک بڑی کمیٹی تشکیل پائی۔ مشرف عہد کی سترھویں ترمیم کے خاتمے کیلئے پیپلزپارٹی کے پاس اٹھارویں ترمیم سے تعاون کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ یہی دور تھا جب عوام کو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں کی خونخوار لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ صنعتی سرگرمیاں مفلْوج ہوگئیں، زرداری صاحب نے آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سربراہ کو توسیع دیکر ’’خیرسگالی‘‘ کی فضا قائم رکھی، دہشت گردی کا عفریت بے قابو ہوگیا۔ کرپشن کا انڈیکس 140 تک جاپہنچا۔ فاٹف گرے لسٹ سے پھسلتے ہوئے بلیک لسٹ کے دہانے تک آگیا۔ مہنگائی بڑھتی رہی۔ ملک میں معاشی ترقی، عوامی فلاح وبہبود اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے کوئی ایسا بڑا منصوبہ سامنے نہ آیا جو اس عہد کا تمغہ افتخار قرار پاتا۔ جاتے جاتے پی پی پی بلوچستان میں بھی گورنر راج نافذ کرگئی۔ 2013ء میں معاشی زبوں حالی، دہشت گردی سے زخم زخم اَندھیروں میں ڈوبا پاکستان نوازشریف کے حصے میں آیا۔ یہ نہایت گھناونی چالوں اور سفاک سازشوں میں لَت پَت ایسی کہانی ہے جس کے ورق ورق سے عفونت اٹھ رہی ہے۔ موسموں کو اپنی مرضی کا رنگ روپ دینے والی ہوائیں پیہم وزیراعظم کی پیٹھ پر تازیانے برساتی رہیں۔ آدھی آدھی رات کو اسکی خواب گاہ پر دستک دیکر پیغام پہنچایا جاتا کہ ’استعفی دیکر گھر چلے جائو ورنہ سنگین نتائج کیلئے تیار رہو۔‘‘ چالوں، سازشوں، دھمکیوں، دھرنوں، لاک ڈائونز، لانگ مارچوں کی یلغارمیں بھی نوازشریف سرپھینک کر اپنا کام کرتا رہا۔ یہاں تک کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں وزیراعظم ہائوس سے نکالا اور عمر بھر کیلئے سیاست بدر کردیاگیالیکن وہ گیا تو تیرہ ہزار میگاواٹ بجلی دیکر اندھیرے دور کرگیا۔ مسلح افواج کے تعاون سے دہشتگردی پر کاری ضرب لگائی۔ فاٹف کو بلیک لسٹ کے دہانے سے نکال کر وائٹ پر چھوڑ گیا۔ تاریخ کا پہلا آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرکے اْسے خداحافظ کہہ گیا۔ مہنگائی کوکبھی تین اور چار فی صد کی شرح سے بڑھنے نہ دیا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کو توانا رکھا۔ جی ڈی پی کو چھ فی صد سے بلند سطح پر چھوڑ گیا۔ کرپشن کے گراف کو 140 سے 117 تک لے آیا۔ عوام کے اتحاد ویقین میں اضافہ کیا۔ سی پیک کی شکل میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لایا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔ جدید ترین مواصلاتی نظام تشکیل دیا۔ خارجہ تعلقات کو وقار بخشا۔ بھارت سے برابری کی بنیاد پر بات کی۔ پاکستان دنیا کی 25 ویں بڑی معیشت بن گیا جسکا د رجہ زرداری دور میں 44 تھا۔ بیروزگاری 6.2 فیصد سے 5.8 تک آگئی۔ پاکستان تمام قابل ذکر اشاریوں میں اوپر اٹھتا آگے بڑھتادکھائی دینے لگا۔معتبر عالمی ادارے’’ بلوم برگ ‘‘نے تینوں جماعتوں کے ادوار کا جائزہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی معاشی کارکردگی کو سب سے بہتر قرار دیا ہے جبکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے گواہی دی ہے کہ نوازدور میں کرپشن کا انڈیکس دوسری دونوں جماعتوں سے نیچے رہا۔
2018ء سے عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کا سفر شروع ہوا تو پاکستان بڑے مسائل پر قابو پاکر، اقتصادی وسیاسی استحکام کی راہ پر چل نکلا تھا۔ ہر چھوٹی بڑی کشتی سے ٹکرانے اور انکے تختے ادھیڑڈالنے والی گستاخ لہریں، عمران حکومت کی نائو کو مادرِ مشفق جیسی لوریاں دینے لگیں۔ ہوا ئیں نہ جانے کہاں کہاں سے ترقی دادہ بیج اڑالائیں اور عمران کی کشتِ سیاست میں بودئیے۔ ٹوکرے بھر بھر کے کھاد ڈالی۔ وافر پانی لگایا۔ سیاسی مخالفین کو سونڈیوں کا درجہ دیتے ہوئے زہریلی کیڑے مار ادویات چھڑکیں۔ ایوانوں میں گنتی پوری کی۔ میڈیا کی چْولیں کسیں۔ لیکن سوختہ بخت بانجھ کھیت سے ایک کونپل بھی نہ پھوٹی۔ البتہ کانٹوں کی فصل چار سو لہرانے لگی جو آج تک کٹنے میں نہیں آرہی۔ تمام تر نازبرداریوں کے باوصف، معاشی انحطاط، سیاسی انتشار، اخلاقی زوال، ادارہ شکنی اور جمہوریت کشی جیسے مکروہات میں لَت پَت یہ دور ہماری تاریخ کا سیاہ ترین ورق تھا۔ 25 ویں بڑی معیشت پونے چار سال میں 47 ویں نمبر پہ چلی گئی۔ 117 نمبر پہ آجانے والی کرپشن چھلانگ لگا کر 140 پر چلی گئی۔ بے روزگاری پھر سے 6.3 فی صد تک جاپہنچی۔ نیشنل گرڈ میں صرف 400 میگاواٹ کا اضافہ ہوا وہ بھی سابقہ حکومت کے منصوبوں کی تکمیل سے۔ خان صاحب نے پونے چار سال میں اتنے بیرونی قرضے لئے جتنے گذشتہ 71 سالوں میں بھی نہ لئے گئے تھے۔ سٹاک ایکسچینج ہچکیاں لیتی رہی۔ پاکستان کی تقدیر بدل ڈالنے کا جوہر رکھنے والا سی پیک، مفلوج ہوکر رہ گیا۔ ناپختہ کار طفلانہ سیاست نے پاکستان کو گہری دلدلی کھائی میں پھینک دیا۔ 2003ء سے 2022ء تک، تین جماعتوں کے تین اَدوار، پیٹھ سے پیٹھ جوڑے ہمارے سامنے ہیں۔ فیصلہ کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ اپنا، اپنی نسلوں اور اپنے وطن کا مستقبل کس کو سونپا جائے؟ مہر لگانے میں فقط ایک لمحہ لگتا ہے لیکن یہ ایک لمحہ آنے والے پانچ سالوں کیلئے ہماری تقدیر کا نوشتہ بن جاتا ہے۔
٭…٭…٭