گوجرانوالہ کے جلسے میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو پہلوانوں والا ’’گرز‘‘ دیا گیا۔
گوجرانوالہ ویسے ہی شہر ہے جی داروں کا، پہلوانوں کا۔ وہاں کے کھابے اور کھانے والے سب مشہور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز وہاں کے جلسے میں جب پارٹی کے رہنمائوں نے اپنے قائدین شریف برادران کو پنجاب کی روایتی پگ پہنائی اور پہلوانوں والے ’’گرز‘‘ دئیے تو شہباز شریف نے جس طرح ران پر ہاتھ مار کر سامعین کے سامنے اپنے مخالفین کو دعوت مبازرت دی اس پر سارا پنڈال جذباتی ہو گیا اور نعرے لگانے لگا۔ میاں نواز شریف نے جب سیاست کا آغاز کیا تھاتو اس وقت بھی یہی پنجاب کی ’’پگ‘‘ کو بچانے کا سوال کیا تھا۔ آج بھی ہر طرف سے اسی پگ پر قبضے کی سیاست ہو رہی ہے مگر اس وقت اس کو تخت لاہور کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں گوجرانوالہ والوں نے گرز تھما کر شریف برادران کو مقابلے میں اتارا ہے تو دیکھنا ہے اب دو روز بعد 8 فروری کو ووٹر کیا کرتے ہیں۔ اس وقت مقابلہ سخت ہے۔ مخالف جماعتیں بھی تمام دا? پیج لڑا رہی ہیں۔ اب جو بھی تخت لاہور کا فاتح ہو گا وہ واقعی فاتح پنجاب کہلائے گا۔ مگر کب تک مخالفین پنجاب کو استعماری قوتوں کا مرکز کہہ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے نظر آئیں گے۔ اور حیرت کی بات ہے سندھ ، بلوچ یا پشتون کارڈ کھیلنے والے معصوم کہلاتے ہیں اور پنجاب کی بات کرنے والا چالاک ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایسا اب نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ بڑا بھائی نہ سمجھیں، پنجاب ہے تو باقی بھائیوں کے برابر۔ اس کے بھی مسائل وہی ہیں جو باقی صوبوں کے ہیں۔ یہاں بھی غربت بیروزگاری ہے۔ اس طرف سے آنکھیں کیوں بند کی جاتی ہیں۔ ان کے درد کو کیوں نہیں سمجھا جاتا۔
٭٭٭٭٭
دہشت گردی ملک کے لیے نئی نہیں۔ وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی۔
تو پھر کیا اس کی کھلم کھلا اجازت دی جانی چاہیے۔ یہ اچھی لاجک ہے کہ دہشت گردی ملک کے لیے نئی نہیں پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ کیا غلطی کو غلط کام کو صرف اس لیے برداشت کیا جائے کہ پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ اس لیے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ ہے ناں عجیب بات۔ وفاقی نگراں وزیر اطلاعات کی اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے کتنے عادی ہو چکے ہیں۔ اب کوئی بھی واردات ہمیں متاثر نہیں کرتی ہمیں پریشان نہیں کرتی۔ کیا یہ بے اعتنائی دہشتگردی کا علاج ہے۔ اس سے تو حکمرانوں کی بے حسی عیاں ہوتی ہے۔ غنڈے سے صرف اس لیے مار کھائی جائے کہ وہ پہلے بھی مارتا رہا ہے۔ ایک مرتبہ اس کا ہاتھ توڑ دیا جائے تو اسے بھی ساری زندگی یاد رہے گا کہ کس سے پالا پڑا ہے۔
مچھ میں جو کچھ ہوا اسکے بعد سکیورٹی فورسز نے 24 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا جو سرحد پار سے امریکی اسلحہ لے کر حملہ آور ہوئے تھے۔ اب ان مرنے والوں میں کئی ایسے ہیں جو لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور ان کے گھر والے دھرنے دے کر ان کی برآمدگی کی بات کرتے تھے۔ ان جیسے نجانے کتنے لاپتہ افراد پڑوس ممالک میں دہشت گردی کی تربیت پا رہے ہیں اور پا چکے ہیں جو افراتفری پھیلانے کے لیے ہمارے اندر بھی چھپے ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے بے اعتنائی برتنے کی بجائے ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔ اس لیے ہماری سکیورٹی فورسز جس تندہی سے جانفشانی سے یہ فریضہ سرانجام دے رہی ہیں قربانیاں دے رہی ہے اس کو سراہنا چاہیے۔ کیونکہ وہ ہمارے لیے ہ یہ سب کچھ کر رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭
ایک دن کی بارش نے کراچی کو تالاب بنا دیا۔
یہ ہے عوامی حکومت کا دعویٰ کرنے والے، عوام کے راج کی بات کرنے والے زرداری و بلاول کے سیاسی دعووں کی اصلیت۔ کراچی پر حکومت کرنے والی پارٹی کا سنہرا کارنامہ۔ بارش کیا ہوئی کراچی ’’گوڈوں گوڈوں‘‘ پانی میں ڈوب گیا۔ اگر شہر تھوڑا سا اوپر نہ ہوتا تو کراچی سمندر میں گھِرا ہوا جزیرہ معلوم ہوتا۔ سڑکیں اور گلیاں ندی نالوں میں بدل گئیں اور شہر تالاب بن گیا۔ نالے گویا گندگی اور کچرے سے اٹے ہوئے ہیں۔ ان پر کچرے کی اتنی موٹی تہہ ہے کہ اس پر بچے بالے آسانی سے چل پھر لیتے ہیں۔ اس صورتحال میں پانی کہاں سے نکلے گا۔ گٹر بند ہونے سے گندا پانی سڑکوں اور گھروں میں پھیل گیا۔ اب معلوم نہیں سندھ حکومت جو ہر سال اربوں روپے ان نالوں کی صفائی اور شہر کے نکاسی آب کے نظام پر خرچ کرتی ہے و ہ کہاں جاتے ہیں۔ کام ہوتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا۔ بارش کے بعد کراچی کی یہ حالت پہلی مرتبہ نہیں ہوئی۔ ہر سال یہی کچھ ہوتا ہے۔ شہری دیکھتے ہیں شور کرتے ہیں مگر کچھ بھی نہیں ہوتا اور اربوں روپے کے فنڈ جاری ہوتے ہیں جو نجانے کہاں جاتے ہیں۔ بڑے بڑے مگرمچھ اسی سیلابی گندے پانی کے نکاس کے لیے ملنے والے فنڈز پر پلتے ہیں یہ کیچڑ اور گندا پانی ان کی زندگی کی نوید بنتا ہے۔ پھر بھی دعوے کیے جاتے ہیں کہ ہم نے سندھ کو پیرس بنا دیا۔ حال یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت گندے پانی کا جوہڑ بن جاتا ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہات کی تو بات ہی نہ کریں وہاں کے لوگ تو اب امیدواروں کو دیکھ کر پتھر اٹھا لیتے ہیں تاکہ وہ رکے بغیر وہاں سے سر بچا کر چلے جائیں…اب تو پورے پاکستان کو سندھ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں دیکھیں کیاہوتاہے۔
منگل‘ 25رجب المرجب 1445ھ ‘ 6 فروری 2024ء
Feb 06, 2024