کراچی (نوائے وقت رپورٹ) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر الیکشن میں گڑبڑ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ نگران حکومت اور انتظامیہ نواز شریف کے حق میں جانبدار ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ (ن) سے اتحاد مشکل ہے، میرے لیے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلنا اب بہت مشکل ہے۔ یہ مسلم لیگ میثاق جمہوریت والی مسلم لیگ نہیں رہی، یہ ووٹ کو عزت دو والی نہیں بلکہ آئی جے آئی والی مسلم لیگ ہے، یہ امیر المومنین بننے کے خواب دیکھنے والی مسلم لیگ ہے، امید ہے نواز شریف کے دباؤ کے باوجود نگران حکومت الیکشن میں مداخلت نہیں کرے گی اور پیپلز پارٹی کامیاب ہوکر حکومت بنائے گی۔ 9 مئی واقعہ بالکل سیاست کے دائرے میں نہیں تھا، سیاست دانوں کو قواعد طے کرنا ہوں گے اور سیاست کو سیاست ہی رکھیں۔ الیکشن شفافیت پر پہلے سے سوالات ہیں، چاہتے ہیں انتخابی عمل پر اس سے زیادہ تنقید نہ ہو، جتنا ممکن ہو صاف و شفاف الیکشن کرائے جائیں، لیول پلیئنگ فیلڈ دیں تاکہ الیکشن کی ساکھ بحال ہو، تاکہ جو بھی وزارت عظمیٰ سنبھالے ہمارا ملک مثبت سمت میں چلے، ملک میں سیاسی افہام و تفہیم چاہتے ہیں تاکہ پاکستان آگے چلے۔ نوازشریف انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر الیکشن میں گڑبڑ کرنا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب کو خبردار کرتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ نگران وزیراعظم کی تقرری شہبازشریف نے راجہ ریاض کے ساتھ مل کر کی۔ راجہ ریاض اب مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جمہوریت کے ارتقا پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے پہلا قدم سیاستدانوں کو اٹھانا پڑے گا۔ سیاسی رہنما اختلافات کو سیاست تک محدود رکھیں، سیاست دانوں کو سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست کرنی چاہئے نہیں تو دوسرے سے بھی توقع نہ رکھیں کہ وہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں گے۔ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے امکان سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم کب تک یہی شکلیں بار بار دیکھتے رہیں گے، اب موقع آگیا ہے کہ ہم اس ملک کی قیادت اور دیکھ بھال ایک نئی نسل کو منتقل کر دیں۔ نواز شریف اگر وزیر اعظم بنتے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ کس سوچ کو لے کر چلتے ہیں، ن لیگ نفرت و تقسیم کی سیاست لے کر چل رہی ہے، اگر نواز شریف کو ریت چھوڑنی ہے تو نفرت کی سیاست چھوڑنا ہوگی، نوجوان آزمائے ہوئے چہروں کو دوبارہ آزمانا نہیں چاہتے۔ ایک اور انٹرویو میں بلاول نے کہا کہ اگر مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو ان کے ساتھ ہاتھ ملانا مشکل ہے۔ نوازشریف وزیراعظم بنے تو وہ دوبارہ وزیر خارجہ نہیں بنیں گے۔ اگر وہ یہ پرانی روایت توڑتے ہیں اور کوئی روایت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ایک ایسا ماحول بنانا چاہ رہے ہیں جس سے جمہوریت کو فائدہ پہنچے تو میں ان کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ شیطان اور گہرے نیلے سمندر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ کراچی میں ریلی سے خطاب میں کہا ہے کہ شہر قائد کے لوگوں نے اگر ہمیں 20 (قومی اسمبلی) کی نشستیں جتوا دیں تو پانچ سال کے اندر کراچی کا نقشہ بدل دیں گے۔ اگر کراچی کے عوام میرے نمائندے منتخب کرائیں گے، پھر بلدیات کے بعد صوبائی حکومت بھی ہمارے ہاتھ میں ہوگی، آپ کے ووٹ سے وفاقی حکومت بھی ہمارے ہاتھ میں ہوگی۔ ہم وفاق میں اپنی حکومت بنا کر کراچی میں تاریخی کام کریں گے اور ہر جگہ شہر کی نمائندگی ویسے ہی ہوگی جیسے اس کا حق ہے۔ سندھ کی کابینہ میں کراچی کو اس کا حق دیا جائے گا اور ہم مل کر شہر کی خدمت کریں گے، اس شہر میں رہنے والوں کو جیالے سمجھائیں کہ وہ تقسیم اور نفرت کی سیاست کرنے والوں کو ووٹ نہ دیں کیونکہ کوئی اس شہر کو مذہب اور کوئی لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ عوام 8 فروری کو تیر پر مہر لگا کر ان تمام عناصر کو جواب دیں کہ وہ نفرت اور تشدد کی سیاست کو قبول نہیں کرتے۔ خواتین کو بھی خدمت کا بھرپور موقع دیا جائے گا۔ عوام ہمیں موقع دیں ہم کراچی کا نقشہ بدل دیں گے۔ خواتین ووٹ ڈالنے کے لئے ضرور گھروں سے نکلیں۔ مقابلہ دو جماعتوں کے درمیان میں ہے۔ عوام کو سمجھانا ہے کہ کسی آزاد امیدوار پر ووٹ ضائع نہ کریں۔ آزاد امیدوار سودا کر کے حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کسی اور کو آپ ووٹ دیں گے تو وہ علاقے کے لیے ٹکے کا کام نہیں کرے گا۔ بلاول بھٹو نے امیدواروں سے حلف لیا اور کہا کہ کچا وعدہ نہیں کرنا، پی پی والا وعدہ کرنا۔کسی علاقے میں پتنگ، ترازو والے آگئے تو انہوں نے ایک ٹکے کا کام نہیں کرنا۔ کراچی میں کام ہم نے ہی کرنا ہے باقی سب بزرگ ہو چکے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ مل کر دن رات کام کریں گے۔ آپ تیر پر ٹھپہ لگائیں میں شیر کا شکار کروں گا۔ کراچی کے عوام ایک نئی سوچ کو چُنیں گے۔ بانی پی ٹی آئی کی سیاست بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ پی پی واحد جماعت ہے جو بلاتفریق عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔