چھ سالہ ہند رجب کی آواز آخری بار اس وقت سنی گئی تھی جب غزہ پر اندھا دھند بمباری کے دوران وہ اپنے قریبی رشتے داروں کی لاشوں کے درمیان اس کار میں پھنسی ہوئی تھی جسے اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ہند سے آخری بار بات کرنے والوں میں سے ایک اس کے دادا بہا حمادہ نے کہا کہ ’وہ خوف زدہ تھی اور پریشان تھی اور اس کی کمر، اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤں زخموں سے لہو لہان تھے۔انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ’وہ مجھ سے کہتی رہی کہ میں آؤں اور اسے وہاں سے لے جاؤں۔‘غزہ کی تنگ پٹی تقریباً چار ماہ قبل شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے بعد سے تباہی کا شکار ہے۔ سڑکوں پر اور بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے لاشیں خراب ہو رہی ہیں۔غزہ شہر کئی ہفتوں سے پٹی کے جنوبی حصے سے کافی حد تک منقطع ہے اور اقوام متحدہ بار بار غزہ کی پٹی کے شمالی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں افراد تک امداد پہنچانے میں حائل مشکلات کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ہند اپنے دادا حمادہ کے بھائی بشار، ان کی بھابھی اور دیگر بچوں کے ساتھ کار میں موجود تھی جب وہ ایک ہفتہ قبل اسرائیلی فوج کی آمد کے بعد غزہ شہر سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔حمادہ نے کہا وہ اسرائیلی ٹینکوں کے راستے میں آ گئے جنہوں نے ان کی کار کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ وہ ابتدائی طور پر بشار کی بیٹی لایان سے بات کرنے میں کامیاب ہو گئے جس نے انہیں بتایا کہ اس کے والدین اور اس کے تین بھائی مارے گئے ہیں لیکن وہ اور ہند اس حملے میں زندہ بچ گئیں۔اٹھاون سالہ حمادہ نے کہا کہ ’ہم نے اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی اور اسے بتایا کہ ہم ایمبولینس کو کال کر رہے ہیں لیکن جب فلسطینی ہلال احمر کے امدادی کارکنوں نے 15 سالہ لایان سے فون پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ بات چیت کے دوران گولیاں چلنے کی آواز آئی اور کال منقطع ہو گئی۔‘حمادہ اور ہلال احمر دونوں کا کہنا ہے کہ لایان بات کرتے ہوئے اسرائیلی فائرنگ میں ماری گئیں۔حمادہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب ایمبولینس وہاں جا رہی تھی، ہند کی والدہ اس سے فون پر بات کر رہی تھی۔ بچی نے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ ایمبولینس دیکھ سکتی ہے، اس کی ماں نے کار کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی اور پھر رابطہ منقطع ہو گیا۔‘اس کے بعد سے ہند یا ہلال احمر ایمبولینس کے اس عملے سے کسی کا رابطہ نہیں ہوا جو اسے بچانے کے لیے وہاں پہنچے تھے۔ہلال احمر نے پیر کو سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ٹیم کے ارکان یوسف زینو اور احمد المدھون جو چھ سالہ ہند رجب کو بچانے کے لیے گئے تھے، سات دن سے لا پتہ ہیں۔تنظیم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’وہ (اسرائیلی) حکام پر ہند اور ریسکیو ٹیم کے ارکان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر مداخلت کرے۔‘حمادہ خود جنوبی شہر رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہ ’ہم اس کا حال جاننا چاہتے ہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ لاشوں کے درمیان، بغیر کھائے پیے اور شدید سردی میں اکیلی تھی۔ کتے اور بلیاں لاشوں کو کھا رہے ہیں۔‘غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کی تباہ کن فضائی، سمندری اور زمینی کارروائیوں میں غزہ میں تقریباً ساڑھے 27 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔حمادہ کے بھائی اور بھابھی کے علاوہ چار سے 15 سال کی عمر کے پانچ بچے کار میں سوار تھے۔ ان کا تین سالہ پوتا اور اس کے والدین غزہ شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ہند میری پہلی پوتی ہے اور وہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔‘ دادا کی جانب سے دکھائی گئی تصویروں بچی کو شوخ رنگ کے پارٹی کپڑوں میں مسکراتے ہوئے کیمرے کے سامنے پوز کر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے حمادہ نے اپنی پوتی آخری بات چیت کے لمحات کو یاد کیا۔ان کے بقول: ’وہ مجھے بتا رہی تھی کہ وہ خوفزدہ اور بھوکی تھی۔ وہ ہم سے اسے بچانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ وہ مجھے بتا رہی تھی کہ ٹینک قریب آ رہے ہیں۔‘