غزہ کا نیوٹن’ کے لقب سے مشہور 15 سالہ فلسطینی بچے نے اپنے ستم رسیدہ ہم وطنوں کو بجلی فراہم کرنے کی ذمے داری سنبھال لی ہے۔
حسام نے یہ کارنامہ کیسے انجام دیا ہے، یہ انرجی سیکٹر کے ماہرین کیلئے دلچسپی کا باعث ہے، جس کا جواب یہ ہے کہ ننھے نیوٹن نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کیے گئے بھاری اسلحے کی باقیات کو کام میں لاکر یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔حسام العطار 7 اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت سے پہلے شمالی غزہ کے بیت لاہیا کے علاقے میں اسکول کا طالب علم تھا، اسرائیلی جارحیت کے بعد وہ خاندان کے ہمراہ اپنا گھر بار چھوڑ کر نصیرات کیمپ پہنچا اور وہاں سے کئی دن پیدل سفر کرکے خان یونس اور خان یونس سے مصر کی سرحد کے قریب رفح شہر پہنچے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 15 سالہ فلسطینی بچے حسام العطار کو ہوا سے کامیابی کے ساتھ بجلی پیدا کرنے پر “غزہ کا نیوٹن” کا نام دیا گیا ہے۔حسام نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ رفح پہنچ کر میں نے اپنے جڑواں بھانجوں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں صرف اور صرف خوف کا بسیرا تھا۔ وہ خیمے کے اندر تاریکی میں خوف محسوس کر رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر میں نے سوچا کہ میں کیسے انہیں خوش کرسکتا ہوں اور کیسے اس جگہ کو روشن کرسکتا ہوں۔حسام نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سوچتے سوچتے اچانک ہوا سے فائدہ اٹھانے کے خیال نے میری حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی. چنانچہ بنیادی معلومات حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنا پروجیکٹ شروع کردیا اور آخر کار اپنے کیمپ میں روشنی لانے میں کامیاب ہوگیا۔15 سالہ حسام نے بتایا کہ میں زندگی سے پیار کرتا ہوں اور میں ایک موجد بننا چاہتا ہوں۔