میں نے تو اسے مذاق ہی سمجھا تھا۔ شاید کسی دل جلے نے اپنے دل کا غبار نکالنے کے لئے اس مذاق کو ”نوٹیفائی“ کر دیا ہو گا۔ مجھے بالکل یقین نہیں آ رہا تھا۔ صوبائی حکمرانی کے میرٹ کے چرچوں میں ایسا ”چرکا“ تو نہیں ہو سکتا۔ پھر تجسس پیدا ہوا تو کھوج لگانے بیٹھ گئے۔ جواب حیران کن حد تک تائیدی اور تصدیقی ملا۔ کچھ آگے کی خبر بھی مل گئی۔ صوبائی حکمران جماعت کے جنوبی پنجاب کے ارکان کی تشویش کی لہریں بھی کانوں میں سرسراہٹ کرنے لگیں۔ تو جناب آپ بھی حقیقت بننے والے اس مذاق کا اس نوٹیفکیشن کی شکل میں مشاہدہ فرما لیجئے جو ایک اخبار کے اندرونی صفحات میں غیر نمایاں طور پر لگائی گئی ایک خبر کی صورت میں میری آنکھوں کے سامنے آیا اور چکا چوند کر گیا۔ نوٹیفکیشن یہ ہے جس کے اب ”فالو اپ“ بھی آ چکے ہیں کہ خادم پنجاب کے ر¶ف حسن نامی ایک میڈیا کنسلٹنٹ کی تنخواہ اور دیگر مراعات مقرر کر دی گئی ہیں۔ یہ تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اسے روٹین کی کارروائی سمجھ کر نظرانداز کیا جا سکتا تھا مگر نوٹیفکیشن میں تو سرکار کی تنخواہ اور مراعات کا پورا چارٹ موجود تھا۔ میں ابھی فیصلہ نہیں کر پایا کہ یہ ہنسنے کا مقام ہے یا رونے کا۔ آپ بھی اس چارٹ کو ملاحظہ فرمائیں اور فیصلے تک پہنچنے میں میری مدد کریں۔ ان حضرت کو میڈیا کنسلٹنسی کے عوض تنخواہ کی مد میں ماہانہ دو لاکھ 40 ہزار روپے ادا کرنا طے ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ پانچ ہزار روپے ماہانہ ہا¶س رینٹ 1600 سی سی کار 340 لٹر ماہانہ پٹرول اور بارہ ہزار روپے ماہانہ یوٹیلیٹی بلوں کی مد میں ادائیگی ان کی مراعات کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس شان و شوکت کے شایان شان دفتر کے بھی کچھ تقاضے ہوں گے۔ پروٹوکول اور آ¶ بھگت کے کھاتے بھی رکھے گئے ہوں گے اور دوسرا وہ کچھ بھی ہو گا جس پر صوبائی حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی کا پیچ و تاب کھانا بنتا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں گریڈ 22 کو سب سے بڑا منصب قرار دیا جاتا ہے جس تک پہنچتے پہنچتے کیﺅں کی کمر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ مگر اس گریڈ کی تنخواہ اور مراعات کو تو ر¶ف حسن صاحب کے سر پر وار کر ان کا صدقہ اتارنے کے کام لایا جا سکتا ہے۔ مجھے صحیح اندازہ نہیں کہ خود وزیر اعلیٰ، وزرائ، مشیروں، خصوصی معاونین، قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور ارکان اسمبلی کی کتنی تنخواہیں اور دوسری مراعات مقرر ہیں مگر میرا گمان ہے کہ ر¶ف حسن صاحب اپنی تنخواہ اور مراعات کے معاملہ میں صوبائی حکمرانی میں سب پر بازی لے گئے ہیں۔ موازنہ کرنے بیٹھیں تو سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے جج صاحبان بھی ان سے مات کھا جائیں گے بلکہ شرما جائیں گے۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ صاحب کسی صوبائی محکمہ کے نئے نئے چیئرمین بننے والے ایک صوبائی سیکرٹری کے بھائی ہیں۔ مجھے ان کی علمیت اور اہلیت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور ایسے کسی معاملہ پر جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی کی تشویش ان کا اپنا درد سر ہے۔ اور اگر یہ صاحب اتنی ڈھیر ساری تنخواہ اور مراعات خادم پنجاب کی ذاتی جیب سے وصول کر رہے ہوتے تو میرے اعتراض کی کوئی وقعت ہی نہ بنتی مگر یہ تو دن دہاڑے اور علی الاعلان سرکاری خزانے پر ڈاکہ مارا جا رہا ہے۔ جس معاشرے میں انتہا درجے کی غربت لاانتہا مہنگائی اور پرلے درجے کی بے روزگاری نے خاندانوں کے خاندانوں کو فاقہ کشی اور اس سے عاجز آ کر خود کشی پر مجبور کر رکھا ہو۔ جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذہین نوجوان اپنی ڈگریاں اور دیگر اعزازات ہاتھوں میں دبائے، گلے میں لٹکائے میرٹ کے کھیل میں تماشہ بنے ہوئے ہوں اور جہاں تنخواہ دار سفید پوش طبقات کو مہنگائی کی مار میں اپنا بھرم قائم رکھنے کے لئے بھی کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ وہاں ر¶ف حسن صاحب جیسے نیلی آنکھوں والے بچوں کی سرکاری شاہانہ پرورش کا اہتمام دیکھ کر حالات سے مایوس نوجوانوں کی فرسٹریشن میں کیوں اضافہ نہیں ہو گا اور اس کے ردعمل میں وہ تہس نہس کرنے پر کیوں نہیں تلیں گے۔ مجھے خادم پنجاب کی خونیں انقلاب والی فکرمندی میں امید کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ اور اس معاملہ میں ان کے فلسفہ کی حقانیت کا بھی میں قائل ہوں مگر اس فکرمندی کے ہوتے ہوئے ر¶ف حسن جیسے سفید ہاتھیوں کو پالنے کا شوق پالنا کیا خونیں انقلاب کی راہ آسان نہیں بنا دے گا۔ ان صاحب کے اتنے قیمتی مشوروں سے ہمارے پیارے صوبہ پنجاب کی ترقی و خوشحالی کے کتنے راستے کھلے ہیں، یقیناً میرے جیسے جاہل کو اس کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ مگر میں اپنے روزمرہ کے حالات سے عاجز آئی خلق خدا کے تیور بدلتے ہوئے ضرور دیکھ رہا ہوں اور یہ خلق خدا غائبانہ نہیں، ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہی ہے کہ
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
آپ جس خطرے کے لئے مترنم فکر مند ہیں اسے قیامت ڈھانے کی تو آپ خود ہی دعوت دے رہے ہیں۔
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
آپ جس خطرے کے لئے مترنم فکر مند ہیں اسے قیامت ڈھانے کی تو آپ خود ہی دعوت دے رہے ہیں۔