عدلےہ کی حکمرانی

مکرمی! آجکل ذاتی مفاد کے لئے سےاست کے مےدان مےں آنے والے ابن الوقت لوگ اور ان کے ہم خےال سےاسی دانشور عدلےہ کے اختےارات کا دائرہ کار متعےن کرنے کی بات کر رہے ہےں اسلامی معاشرے مےں نہ تو کوئی شخص عدلےہ سے بالاتر ہے اور نہ ہی عدل کسی خاص طبقے کے لئے مخصوص ہے جس کی واضح مثال چوتھے خلےفہ راشد حضرت علی ؓ کے دور مےں پےش آنے والا واقعہ ہے جس مےں اےک ےہودی اور حضرت علیؓ کے درمےان زر ہ بکتر کی وجہ سے جھگڑے کا معاملہ قاضی وقت کی عدالت مےں پےش ہوا حضرت علی ؓ اسلامی حکومت کے خلےفہ ہونے کے باوجود قاضی کے روبرو پےش ہوئے اور قاضی نے گواہوں کی عدم دستےابی کی بناءپر فےصلہ حضرت علی ؓ کے خلاف دےا اور اسی سلوک سے متاثر ہو کر اس ےہودی نے اسلام قبول کر لےا۔ اسلامی معاشرے کے اندر عدلےہ اور قانون کے امور ہر کسی کے لئے ےکساں ہےں اس لئے اےک عام آدمی کو تو اس کے جرم کی کڑی سزا دےنا اور سربراہ مملکت ےعنی صدر کی ذات کو آئےن کی رو سے مستثنیٰ قرار دےنا اور عدلےہ کے اختےارات کا دائرہ کار متعےن کرنا نہ صرف ملک عزےز کی عوام کے ساتھ زےادتی ہے بلکہ اسلام کے مرتب کردہ اصول و قوانےن کی خلاف ورزی ہے جو کہ ہمارے زوال کی اصل وجہ ہے۔ اےک اسلامی اور فلاحی رےاست کی تشکےل کےلئے عدلےہ کی بالادستی ضروری ہے۔ (محمد عثمان.... متعلم وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد 0314-51040663:)

ای پیپر دی نیشن