اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف ”صدارتی ریفرنس“ میں وفاق کے وکیل بابر اعوان کو میڈیا سے توہین عدالت پر مبنی گفتگو کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے الزام میں اظہار وجوہ کا ایک اور نوٹس جاری کرتے ہوئے 9 جنوری تک جواب طلب کر لیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کیوں نہ آپ کا وکالت نامہ منسوخ کر دیا جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس میاں شاکر اللہ جان، جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس ناصر الملک، جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس طارق پرویز خان، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیر مسلم ہانی پر مشتمل 11 رکنی لارجر بنچ نے ریفرنس کی سماعت کی تو عدالت نے بابر اعوان کی بدھ کو میڈیا سے گفتگو کا سخت نوٹس لیا اور ان کی سرزنش کی۔ فاضل چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کہا ہے، بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں نے عدالت کے نوٹس کا مذاق نہیں اڑایا آپ شعر کے صرف پہلے حصے کو نہ دیکھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ نے آپ کو وکالت کا لائسنس دیا ہے آپ عدلیہ کی عزت نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ یہ بہت اہم معاملہ ہے اب بھٹو کیس سے پہلے اس کا فیصلہ کریں گے۔ عدالت کے حکم پر بابر اعوان کی گفتگو کی فوٹیج عدالت میں دکھائی گئی جسے دیکھ کر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا عدلیہ اس سلو ک کی مستحق ہے کم از کم میں تو اسے دیکھنے کے بعد بنچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدلیہ کا احترام ہے، یہ فوٹیج دیکھنے کے بعد 32 ممالک میں عدلیہ کی کیا عزت رہ جائے گی۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ جج کام نہیں کرتے کیا یہ کام کا ماحول ہے؟ اس دوران عدالت میں موجود سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یٰسین آزاد، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین لطیف آفریدی اور علی احمد کرد نے کہا کہ اس معاملے میں بار ایسوسی ایشن بابر اعوان کے ساتھ نہیں بلکہ عدلیہ کے ساتھ ہے، کسی کو عدلیہ کی تضحیک کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے بابر اعوان کے بیان پر عدالت سے معذرت بھی کی گئی۔ یٰسین آزاد نے درخواست کی کہ کچھ وقت دیا جائے اس کا حل ڈھونڈ لیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے بابر اعوان کی فائل بھی طلب کی۔ چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ آپ کب سے وکالت کر رہے ہیں، انہوں نے کہا مجھے تاریخ یاد نہیں۔ انہوں نے اس دوران کہا کہ ان کا گذشتہ روز کا معاملہ جونیئر ججوں کو بھجوایا گیا ہے جس کا عدالت نے برا منایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی عزت اس لئے نہیں کہ افتخار چودھری اس کا چیف جسٹس ہے بلکہ اس کی عزت ایک ادارے کے طور پر کی جانی چاہئے۔ بابر اعوان نے ان الفاظ کی تردید کرنے کی بجائے دعویٰ کیا کہ انہوں نے عدلیہ کے احترام میں شعر پڑھا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین نے عدلیہ کے موقف کی حمایت کی کہ بظاہر بابر اعوان کا طرز عمل ناپسندیدہ ہے اس لئے کیوں نہ ان کا نام وکلا کی فہرست سے خارج کر دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک عدلیہ کی عزت نہیں ہو گی کام نہیں چلے گا۔ بابر اعوان نے کہا کہ مجھے سنے بغیر یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 36 سال سے اس شعبے میں ہیں مگر کیا یہ عزت ملی ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے استدعا کی کہ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی کی تضحیک کا کسی کو اختیار نہیں۔ تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بابر اعوان سپریم کورٹ کے نوٹس کا جواب 9 جنوری سے قبل دینے کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک فاضل بنچ نے بابر اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا۔ میڈیا پر توہین عدالت نوٹس کے سوال پر بات کرتے ہوئے بابر اعوان نے مصرعہ پڑھا۔