ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”پس تم مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو“ (القرآن)۔ متحد ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی تمہارے ساتھ ہو گی۔ جب بھات نے ستمبر 1965ءکی جنگ ہم پر مسلط کر دی تو ہماری بہادر افواج نے اور مغربی اور مشرقی پاکستان کے مرد و زن نے متحد ہو کر اپنے سے دس گنا بڑی طاقت کا مقابلہ کیا اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے بھارتی سور ما¶ں کے عزائم خاک میں ملاتے ہوئے کئی بھارتی علاقوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ اگرچہ ہمارے اتحادی امریکہ نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔ بلکہ جب سے امریکہ کے ساتھ ہمارے دفاعی‘ تجارتی‘ ثقافتی اور دیگر معاہدے ہوئے ہیں اس نے ان کی کبھی بھی پاسداری نہیں کی۔ 1962ءمیں جب بھارت نے جارحیت کرتے ہوئے چین پر حملہ کر دیا تو ہمارے اتحادی امریکہ نے صدر ایوب خان سے کہاکہ بھارت اس وقت مشکل حالات میں ہے لہٰذا پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ جبکہ بھارت روس کا اتحادی تھا۔ 1971ءکی جنگ میں بھی ہمارے اتحادی امریکہ نے اعلان کیا کہ چھٹا بحری بیڑا ڈھاکہ روانہ کر دیا گیا ہے۔ جو جنگ بند کروانے اور امن قائم کرانے میں رول ادا کرے گا۔ جو بدقسمتی سے آج تک ڈھاکہ کی ساحل تک نہ پہنچ سکا؟ اس جنگ میں امریکہ‘ روس‘ اسرائیل اور دیگر اسلام دشمن قوتوں نے بھارت کی مدد کی۔ 1965ءکی جنگ کے دوران ہمارے قابل اعتماد دوست ہمسائے ملک چین نے اپنی بساط کے مطابق ہماری بھرپور مدد کی تھی۔ بیشتر اسلامی ممالک نے بھی ہماری امداد میں اپنا حصہ ڈالا۔ پاکستان کی کامیابی دنیا کی نظروں میں کھٹکنے لگی۔ اس جنگ کے بعد بھارت اور اسلام دشمن قوتوں نے متحد ہو کر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو کمزور کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ انکی سازشوں اور اپنوں کی غداریوں کی وجہ سے صرف چھ سال کے اندر اندر متحدہ قوم کا شیرازہ بکھر گیا اور سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ پیش آیا۔ وہ بنگال جس میں 30 دسمبر 1906ءکو آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی اور بنگال نے ہی قرارداد پاکستان پیش کی۔ تحریک پاکستان میں بھی دوسرے صوبوں کی طرح بنگال کا کردار بھی مثالی تھا۔ صدر ایوب خان کے دور حکومت میں اگر تلہ سازش کا انکشاف ہوا۔ کلکتہ اور مشرقی پاکستان کے بین الاقوامی بارڈر کے قریب دہشت گردی کے کیمپ قائم کر دئیے گئے۔ اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے اور صدر ایوب خان کے بھی اتنے قریب تھے اور وہ ان کو اپنا ڈیڈی کہتے تھے۔ صدر ایوب خان بھی ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ جب ایوب خان کے خلاف انہوں نے ایجی ٹیشن شروع کی اس سے پہلے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں بھی ایجی ٹیشن جاری تھی اور شیخ مجیب الرحمن اپنے 6 نکات پیش کر چکے تھے۔ تحریک کی وجہ سے پاکستان کے تمام ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے اور جلا¶ گھیرا¶ میں سرکاری عمارتوں‘ املاک اور لوگوں کی نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ لاءاینڈ آرڈر کا بھی مسئلہ پیدا ہو گیا ۔ نوابزادہ نصراللہ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ شورش کاشمیری اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنما¶ں نے ایوب خان سے گول میز کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ باامر مجبوری ایوب خان نے اس مطالبے کو منظور کر لیا اور جب کانفرنس کی تیاریاں آخری مرحلہ میں تھیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے یہ مطالبہ کر دیا کہ جب تک ہمارے بڑے بھائی شیخ مجیب الرحمن کو شریک نہیں کیا جائے گا ہم بھی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ شیخ مجیب الرحمن اگر تلہ سازش کیس میں جیل میں قید تھے اور انہوں نے پاکستان سے غداری کا ارتکاب کیا تھا جس سے ذوالفقار علی بھٹو باخبر تھے اس کے باوجود انہوں نے مجیب الرحمن کو رہا کرانے کی سب سے زیادہ کوشش کی؟ (جاری)