کیا لگ نہیں رہا کہ حالات و واقعات دور دور ہوئے پی پی پی اور ن لیگ والوں کو قریب قریب کر دیں گے؟
درج بالا سوال کے سیاق و سباق پر غور کرنے سے قبل، پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ق لیگ، ایم کیوایم اور منہاج القرآن میں کون سی چیزیں مشترک ہیں جو ان کو آپس میں قریب کرتی ہیں؟
ق لیگ نے الیکشن کمیشن کو جانبدار قرار دے دیا ہے۔ ایم کیو ایم کو حلقہ بندی کے تغیر کی باتوں اور اقدامات پر سخت اعتراض ہے اور کراچی کے حوالے سے حلقہ بندیوں پر اس قدر تحفظات رکھتے ہیں کہ انہیں اگر پی پی پی سے آخری لمحوں میں دور بھی ہونا پڑتا ہے تو وہ ہو جائیں گے لیکن اس پر کمپرومائز نہیں کریں گے۔
رہی بات ڈاکٹر طاہرالقادری کی، تو اس ضمن میں سیاسی و جمہوری باتیں کم اور ایک رٹا رٹایا ہوا سبق زیادہ لگتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سے مثبت جمہوری اور سیاسی امید رکھنا ہاتھوں پر سرسوں جمانا کے مصداق ہے کیونکہ ”مایوس“ آدمی کا عمدہ قیادت کی فراہمی میں کامران ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاسی و غیرسیاسی تاریخ پر غور کریں، تو ان کے نعرے ہمیشہ بڑے بڑے ہی ہوئے ہیں، اور ان کو ہمیشہ یہی لگتا رہا ہے کہ جوش خطابت اور زیب داستان کیلئے وافر ریشمی لفاظی کامیابی کے زینے پر چڑھنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ انہیں ہر دفعہ شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ تیسری دفعہ ہے کہ خوش فہمی اور غلط فہمی نے پھر انہیں ایک نیا چکر چلانے پر مجبور کر دیا ہے۔
بلاشبہ و بلامبالغہ یہ ایک شعلہ بیان مقرر، متاثر کر دینے والے سکالر، اچھے خطیب اور تنظیمی کاریگری سے آشنا ہیں لیکن ان سب چیزوں کا یہ مطلب کہیں نہیں نکلتا کہ وہ انتخابات، آئین اور جمہوریت کے سبھی حساس پہلوﺅں اور ریاست کے تمام امور میں بھی بے مثال ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی اور آئین سازی کی شاہراہ پر ایک ناتجربہ کار شخصیت ہیں۔ اسلام کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کا لفظ بھی ان کے نام کے سابقوں اور لاحقوں کا حصہ بن جائے گا:
(1) اس کیلئے انہوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایک سیاسی اتحاد کے موقع پر ایک معروف ”نعرہ“ بلند کیا تھا کہ، اسلام اور عوام ایک ہو گئے لیکن اس اتحاد کی استقامت اور طاقت بننے میں یہ بری طرح ناکام ہو گئے تھے۔
(2)سابق آمر جرنیل پرویز مشرف نے جب عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں تھامی تو انہوں نے خواص و عوام کے علاوہ میڈیا کو یہ ”سوڈو تاثر“ دینا شروع کیا کہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت ان کی مرہون منت ہے، اور مشرف ان سے پوچھے بغیر ایک قدم بھی نہیں چلتا۔ جسے وقت نے غلط تاثر کے طور پر تاریخ کے سینے پر کندہ کر دیا۔
(3) الیکشن 2002ءسے قبل ملک کے ہر کوچہ و بازار میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے پیغام، لٹریچر اور پراپیگنڈہ پہنچایا گیا، کہ وہ 2002ءکے انتخابات کے بعد وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ شہروں میں دوپہر کے وقت کے عین الیکشن کے دن خود ساختہ ضمیمے شائع ہو کر عوام اور پولنگ سٹیشنوں پر آ گئے کہ:
”ڈاکٹر طاہرالقادری بھاری اکثریت سے کامیاب ہو رہے ہیں۔“
ہاں درست بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے شہرت کی بلندیوں کو چھونے کا آغاز ”داخلی طور“ پر اپنے تحقیقی رویے اور”خارجی طور پر میاں شریف اینڈ سنز کی عقیدت کے بل بوتے پر کیا۔ مگر بعد میں یعنی میاں برادران سے ”علیحدگی“ کے بعد معاملہ کچھ یوں رہا کہ ....
کچھ تلخیاں حیات کی تقدیر بن گئیں
ہر ذوق آرزو کو دبانا پڑا مجھے
لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ذوق آرزو کو دبانے کی کوشش ضرور کرتے رہے لیکن ستم تو یہ ہے کہ وہ جس قدر دباتے رہے یہ اس قدر وقتاً فوقتاً ابھرتی رہی۔
ق لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پی پی پی حکومت کی حصہ دار نہ ہو تو ان کے بچے کھچے ایم این اے اور ایم پی اے بھی اڈاری مار کر جیت والی چھتری پر بیٹھ چکے ہوتے۔ پس ان کا پی پی اتحادی بننا بھی ضروری تھا لیکن اپنی ہی حکومت کو بلیک میل کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ
(i)ق لیگ آئندہ الیکشن میں اپنے نشان پر الیکشن لڑنا چاہتی ہے، اتحادی نشان پر نہیں۔
(ii)متعدد حلقوں میں ق لیگ پہلے اور دوسرے نمبر پر رہی لہٰذا وہ قومی اسمبلی میں 70 سے 80نشستوں کا مطالبہ رکھتی ہے۔
کچھ ماہ قبل ق لیگ کا معاملہ یہ تھا کہ سیاست اور اقتدار کی ابر نے انہیں اس قدر ترسا دیا تھا کہ ’برسی جو بوند بھی تو سمندر لگی اسے‘۔ لیکن قبل ازانتخابات ق لیگ پھر دوراہے پر ہے۔ ایم کیو ایم کیلئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اسے سیاسی اتحاد ہمیشہ ہی ڈسپوز ایبل چاہئے سو ان کا اقتدار کی شراکت سے اتحاد ہوتا ہے کسی پارٹی یا فرد سے نہیں۔ انہوں نے ”حکومتی ایوان“ کو سمجھا رکھا ہے کہ....ع
”جیتوں تو تجھے پاﺅں ہاروں تو پیا تیری“
جو بھی کہیں، ایک دفعہ تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ایم کیو ایم کی رضامندی اور ق لیگ کی نیم رضامندی نے ایوانوں اور بالاخانوں میں ہلچل مچا دی۔ لیکن پھر بھی یہی کہیں گے کہ ڈاکٹر صاحب کے مینار پاکستان والے جلسے کے حاضرین ہوں یا لانگ مارچ کرنے والے ساتھی، یہ سبھی الیکشن والے دن اتنے ہی جوش خروش کے ساتھ تیر شیر یا ترازو شرازو اور پتنگ پر ٹھپے لگا رہے ہوں گے۔
ہاں جس بات کی سمجھ نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب عدلیہ اور فوج کی ”وکالت“ کیوں کر رہے ہیں۔ وکالت نامہ کے حصول کے بغیر وکالت کرنا بھی ایک جرم ہے۔ چشم بینا سے دیکھا جائے تو عدلیہ اور فوج ازخود اصولی موقف پر قائم و دائم تھی۔ اور اب بھی ہے عدلیہ اور فوج نے احسن انداز میں حکومت سے معاملات رکھے۔ نہ میٹھے رہے کہ حکومت نگل جاتی اور نہ کڑوے تھے حکومت بپھر جاتی۔ ہر صورت میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا اور نہ اصول و ضوابط کی گاڑی کو پنکچر ہونے دیا۔ رفتہ رفتہ ترامیم سے غیرجانبدار الیکشن کمیشن سمیت کئی معاملات کو افہام و تفہیم سے نمٹا لیا۔ حتیٰ کہ غیرجانبدار نگران حکومت کو فائنل کرنے کے درپے بھی ہیں۔ دہشت گردی اور توانائی کے بحران پر بھی اگر یہ لوگ ایک نکتہ پر آ جاتے تو یہ بھی ٹھیک ہونے کی جانب بڑھتے۔ جمہوریت اور مثبت انداز فکر میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ جادو کی چھڑی یا الہ دین کا چراغ نہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری اور ہم نوا یہ ذہن میں رکھیں کہ کوئی ایسی بوتل نہیں جس سے جن نکلے تو وہ سب کچھ ٹھیک کر دے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو کوئی جن کینیڈین یا برطانوی بوتل میں بند ہونے کی نوبت تک ہی کیوں پہنچتا؟
یقین کیجئے! اگر زرداری صاحب یا نواز شریف صاحب کو کسی مرحلہ پر بھی میثاق جمہوریت کی ضرورت پڑی تو یہ کنفیوزڈ اور بے بنیاد مارچ ایک ملاقات کی مار ہوں گے!!!
ایک ملاقات کی مار....!!!
Jan 06, 2013