پاکستانی سیاست میں ان دنوں سب سے زیادہ جس بات کا تذکرہ ہو رہا ہے وہ علامہ طاہر القادری کی جانب سے 14جنوری کی لانگ مارچ ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاریوں کو پس پشت ڈال کر طاہر القادری کی شخصیت ان کی حکمت عملی اور خاص طور پر یہ معلوم کرنے پر وقت صرف کر رہی ہیں کہ ان کے پیچھے کون ہے؟
"پیچھے کون ہے "کی تھیوری پر عمل کرتے ہوئے سیاستدان، دانشور، تجزیہ نگار اور صحافی حضرات سب ہی دور دور کی کوڑیاں ڈھونڈ کر لا رہے ہیں۔ایک طبقہ فکر کا خیال ہے کہ قادری صاحب کو امریکہ اور مغربی ممالک نے "لانچ "کیا ہے جبکہ دوسرے طبقہ فکر کا خیال ہے کہ اسے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے میدان میں اتارا ہے تیسرا طبقہ فکر کہتا ہے کہ قادری صاحب بذات خود انقلابی سوچ لے کر میدان میں اترے ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں دو وزرائے اعظم لیاقت علی خان،بے نظیر بھٹو کو دن دھاڑے شہید کر دیا گیا ہواور ایک طاقت ور ترین صدر مملکت جو آرمی چیف بھی ہوں ،طیارے کے حادثے میں سازش کا شکار ہو چکے ہوں اور آج تک سراغ نہ لگایا جا سکا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے کھوجی اس کا پتہ چلا سکیں کہ علامہ طاہر القادری کیا خود آئے ہیں یا انہیں بھجوایا گیا ہے!۔
دانش کا تقاضہ ہے کہ حکمران اور سیاست دان پیچھے کون ! کی تلاش میں وقت ضائع کئے بغیر حالیہ صورت حال سے نمٹنے کا ایک ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ اگر طاہر القادری صاحب خواہ خود آئے ہوں یا انہیں کسی نے "لانچ "کیا ہو کامیاب نہ ہو سکیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو ثابت کرنا ہے کہ وہ بالغ النظر ہو چکے ہیں ،اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔ طائع آزما اور ریشہ دوانیاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
طاہر القادری کے اعلان مارچ کے ساتھ ہی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، عمران خان نے تو دو دن بعدپینترا بدلنا شروع کر دیا لیکن ایم کیو ایم کے قائد نے تو ایساانداز اختیار کیا کہ جیسے وہ اس مارچ کے پہلے ہی سے منتظر بیٹھے تھے۔ میڈیا نے جب اس مارچ کے حوالے سے حقائق کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کیا تو یہ انداز الطاف حسین کو نہ بھایا۔ انہوںنے اپنے خطاب میں کہا"اینکر پرسن اور رپورٹرز ایم کیو ایم کے خلاف بکواس کر رہے ہیں۔ آپ کو اختلاف کا حق ہے بکواس کا نہیں(انہوںنے یہ فقرہ دو بار دوہرایا)انہوں نے میڈیا کو دھمکی دی کہ" اگر انہوںنے (میڈیا)رویہ نہ بدلا تو ہمیں بھی اللہ نے ہاتھ دیئے ہیں"۔الطاف حسین صاحب کو جب یہ احساس ہوا کہ انہوں نے نامناسب الفاظ استعمال کئے ہیں تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اپنے الفاط واپس لے لیے ۔
ایم کیو ایم پاکستان کی ایک منظم اور موثر سیاسی جماعت ہے اسے غریب اور متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت بھی سمجھا جاتا ہے ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جماعت اپنا تشخص کھوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں نصف درجن سے زائد بار ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی اورحزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن چند ہی دن بعد اپنا اصولی موقف چھوڑ کر حکومت کے ساتھ ہو گئے۔ ایم کیو ایم کے گورنر سندھ عشرت العباد صاحب نے بھی دوبار استعفیٰ دیا لیکن دونوں بار اصولی موقف کو قربان کر تے ہوئے اقتدار کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ ایم کیو ایم کے نکتہ نظر سے شاید یہ حکمت عملی ان کے لیے بہتر رہی ہو لیکن سیاست کے طالب علم اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں یہ انداز کسی بھی اعتبار سے ایک قومی سیاسی جماعت کے لیے قابل تحسین نہیں ۔
طاہر القادری صاحب کے لانگ مارچ کے حوالے سے ایم کیو ایم نے "مدعی سست گواہ چست" کی مصداق قاردی صاحب کا ہر اول دستے کا کردار سنبھال لیا لیکن گزشتہ دو دنوں سے ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق کی طرح پینترا بدل رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم اپنے سیاسی تشخص کے اعتبار سے آج کل بھنور میں ہے۔ ملک کے اندر اور باہر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ الطاف حسین صاحب کے انداز گفتگو میں متانت،شائستگی اور حلاوت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان کی قوت اظہار ہیجانی کیفیت کا شکار نظر آتی ہے۔
عمران فاروق کیس کی چہ میگوئیاں، کراچی کی حلقہ بندیوں کا معاملہ اور سات جنوری کو ایم کیو ایم کے قائد کی سپریم کورٹ میں طلبی کے معاملے نے یقینی اعتبار سے ایم کیو ایم کو کئی چیلنجز کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ آصف علی زرداری کی طرز سیاست اور مسلم لیگ (ن )کی ضرف کاری نے بھی ایم کیو ایم کے "اصولی لبادے" کا پردہ خاصی حد تک چاک کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم کا رہا سہا بھرم علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ ایم کیوایم کی سیاست کا تجزیہ بذات خود سیاسیات کے طالب علم کے لیے کئی دلچسپ اور حیران کن پہلو لئے ہوئے ہے لیکن اس وقت تو زیر بحث معا ملہ طاہر القاردی کی" کڑھی میں ابال" کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا 14جنوری کا مارچ ملکی سیاسی دھارے کا رخ تبدیل کر سکے گا یا یہ محض "A Storm in a tea cup" ثابت ہو گا۔ زرداری صاحب کی "رحمان ملک ڈپلومیسی" اور نواز شریف صاحب کا کھل کرلانگ مارچ کی مخالفت کرنے کے اعلان نے اس مارچ کے زور کو بظاہر روکنے میں خاصی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اسلام آباد کا سرد موسم بھی اسی لانگ مارچ کی گرما گرمی کا ٹھنڈا کرنے میں معاون بن رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے تیور بھی نمایاں طور ہر سامنے نہیں آ رہے۔ان تمام محرکات کے باوجود موجودہ سیاسی نظام کے مدار المہاموں کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔
طاہر القادری صاحب نے اس لانگ مارچ کا اعلان محض سیاسی حربے کے طور پر نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس عمل کی خوب خوب تیاری کی ہے اور" تربیت" بھی ان کی معاون ہے۔ مینار پاکستان پر ان کے©" کامیاب شو" کے بعد اگر خفیہ اسباب ان کی معاونت کر گئے تو کیا ہو گا؟۔ اس پر غور کرنا "بڑے سیاستدانوں"کا کام ہے ۔ "قلم کاروں"کا نہیں۔
علامہ طاہر القادری نے پاکستان کے سیاسی نظام اور انتخابی عمل کی اصلاح کے لیے جن نکات کی نشاندہی کی ہے وہ انتہائی اہم ہیں۔ ان پہلوﺅں کی اصلاح سے ہمارے سیاسی نظام کو جاگیر داروں، وڈیروں اور بد دیانت سیاستدانوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ مشکل یہ ہے کہ اس کام کے لیے تحریک چلانے کا اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب عام انتخابات سر پر ہیں اور اس طرح کی تحریک نہ صرف یہ کہ انتخابات کے التواءکا باعث بنے گی بلکہ ملک میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے جس سے جمہوریت لپٹ سکتی ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ قادری صاحب کی جانب سے پیش کیے جانے والے نکات کا حکومت سنجیدگی سے جائزہ لے اوران پر غور کرنے کے لیے ایک قومی کمیٹی تشکیل دے جو ایک ہفتے میں اپنی تجاویز تیار کر کے پارلیمنٹ کو پیش کرے ۔خصوصی طور پر الیکشن کمیشن کے اختیارات کے حوالے سے پارلیمنٹ فوری قانونی سازی کر سکتی ہے۔ ابھی پارلیمنٹ کی مدت باقی ہے۔حالات کا تقاضہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی جلد از جلد کر دیا جائے تاکہ نگران حکومت کی تشکیل کا عمل شروع ہو جائے۔