الیکشن کمشن آف پاکستان نے تین صوبوں کے الیکشن کمشنر تبدیل کر دیئے! اور سرکاری اشتہارات کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کی تشہیری مہم پر پابندی عائد کر دی ہے! جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان مسلم لیگ قاف، متحدہ قومی موومنٹ کی مخالفت اور عوامی نیشنل پارٹی کے واک آﺅٹ پر بھی سینٹ کی ’ٹیکس ایمنسٹی سکیم‘ پر قائمہ کمیٹی کی سفارشات منظور کر لی گئیں! اور بِل قومی اسمبلی کے غور و خوص کے بعد باقاعدہ منظوری کے لیے ارسال بھی کر دیا گیا!چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیر صدارت جی ایچ کیو میں منعقدہ 156ویںکور کمانڈرز کانفرنس نے اندرونی سلامتی کی صورت حال پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمشن کے ساتھ مکمل تعاون پر اتفاق کر لیا! جبکہ راجہ پرویز اشرف نے جنابِ نواز شریف سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے اُنہیںمجوزہ نگران وزیراعظم کے سلسلے میں اعتماد میں لینے کی کوششیں شروع کر دیں! ایک اخباری اطلاع کے مطابق جناب محمود اچکزئی اچانک نگران وزیر اعظم کے لیے مضبوط امیدوار بن گئے ہیں! اور اُن کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کی بقا کے لیے کوئی بھی ذمہ داری قبول کر سکتے ہیں! ایک اور اطلاع کے مطابق جنابِ راجہ پرویز اشرف نے جنابِ محمود اچکزئی کی موجودگی میں نواز شریف سے ٹیلی فونی رابطہ کیا! جناب چودھری شجاعت حسین، جناب چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کی! اور جنابِ اسفند یار ولی ، جنابِ فضل الرحمن سے رابطے کیے! پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیٹر جنابِ مشاہد اللہ کا فرمانا ہے کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی جنابِ محمود اچکزئی کے نام پر اتفاق کر لے، تو، یہ بہت اچھا قدم ہو گا! باتیں، تو، اور بہت سی بھی ہیں! مگر، ہم اُن پر کچھ کہنے کے لائق ہی نہیں رہ گئے! کیونکہ ہماری آواز ہمارا ساتھ چھوڑ گئی ہے! ہم کچھ بھی کہیںکوئی سمجھتا ہی نہیں کہ ہم کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ بس یوں سمجھ لیں کہ ہم اپنے گھر اور دوستوں میں ’شیخ الاسلام‘ بن کے رہ گئے ہیں! ہر وقت بولتے رہتے مگر، کہہ کچھ نہیں پاتے! اور اگر ہم کچھ کہہ بھی بیٹھیں، تو، اس پرکسی کو کان دھرنے کے لیے راضی ہی نہیں پاتے! جنابِ رحمن ملک ’گھر جا کے شکیت لانواں گی‘ پر عمل کر نے کی غرض سے لندن جا پہنچے! مگر، جنابِ الطاف حسین نے اُنہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو جنابِ طاہر القادری سے رابطہ کرنے کا مشورہ دے کر دوبارہ طیارے میں سوار کرا دیا کہ جا بیٹا! ’گھر جا کے ایک اور شکایت لگا!‘جنابِ رحمن ملک واپس وطن پہنچے، تو، ’شیخ الاسلام‘ غریبوں کو زیورات بیچ کے سیاست پر خرچ کرنے کا درس دیتے دکھائی دیئے! وہ سوچ میں پڑ گئے کہ یہ، تو، ہم سے کہیں آگے کی چیز معلوم ہوتے ہیں! اور یہ ملک اور قوم کے ساتھ ساتھ غریب عوام کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں! اب یوں ہے کہ جنابِ رحمن ملک نہ ہی قیادت کے سامنے جانے کے اہل رہ گئے ہیں! اور نہ ہی جنابِ طاہر القادری کا سامنا کرنے کے لائق رہ پائے ہیں! رہ گئے راہ دکھانے والے، تو، وہ لندن اور واشنگٹن میں بیٹھے ہم پر ہنس رہے ہیںکہ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کہ ان سے ’شیخ الاسلام‘ تک نہیں سنبھالا جا رہا! یہ کسی واقعی بڑے مسئلے سے کیوں کر نبرد آزما ہو سکیں گے؟دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ملک کے تمام اہم ترین ادارے عام انتخابات کے انعقاد پر یقین رکھتے ہیں! اور اس راستے پر اگلے قدم اُٹھانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں! اور اسی ماحول میں ایک شخص عام انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحی پروگرام لیے لوگوں کے زیورات تک بکوا دینے کا پروگرام لیے پھر رہا ہے! اور جنابِ رحمن ملک یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں! مگر، کر کچھ نہیں سکتے کہ یہ بھی اُنہی کے پرستاروں کا فرستادہ ہے!کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بدکمارجو چال ہم چلے، سو، نہایت بُری چلے