آغا جان ! ہمارا سائبان

آغا جان ! ہمارا سائبان

محبت اور شفقت سے گندھا ہوا آغا جان کا وجود نہ رہا تو زندگی بقول مریم گیلانی بہت ہی خاموش ہوگئی ہے۔ یہ بے لوث رشتہ بہت ہی بھرپور تھا ۔ سر پر سایہ بھی اور منزل کا نشان بھی ۔ اپنے ہاتھ خالی سے لگنے لگے ہیں کیونکہ جس انگلی کو پکڑکر چلنا سیکھاتھا ۔ جن قدموں کے نشان پر بے خطر چلی تھی کہ یہ ہمیشہ منزل تک ہی لے جائیں گے اور جن کندھوں کو ہمیشہ سے اپنے سامنے یوں پھیلے ہوئے دیکھاتھا کہ ان سے گزر کر کبھی کوئی مشکل مجھ تک پہنچ ہی نہیں پائے گی وہ یوں اچانک ہی چھوڑ کر چلے جائیں گے۔کبھی اس کاتصور بھی نہیں کیاتھا۔ آغا جان کی جدائی کی اذیت نے زندگی سے بے فکری کو ایسے اڑا دیا ہے جیسے تیز دھوپ میں رنگ اڑ جاتے ہیں۔ ایک درد بھرا احساس ہے جو پورے وجود میں پھیل گیا ہے کہ اب وہ سراپا محبت وجود جس میں سب غموں کاعلاج اور سارے جہان کاتحفظ میسر تھا وہ اب نہیں رہا۔
غضب کی دھوپ تھی تنہائیوں کے جنگل میں
کئی شجر تھے مگر سایہ دار کوئی نہ تھا
اور یا مقبول جان نے میرے آغا جان کے بارے میں لکھا کہ ان کا کیسا چہرہ تھا کہ آنکھ اس سے ہٹتی نہ تھی ۔ تبسم ایسا کہ دلوں کے زخم دھل جائیں، آنکھوں میں گہرائی ایسی جس میں اکثر حزن و ملال اور اُمت مسلمہ کادرد ، جھیل کے پانیوں کی طرح چھلکتارہتاتھا۔ مائیکل اینجلو جسے دنیاایک بڑا مصور مانتی ہے ، جس نے روم کے گرجا گھروں میں عالم بالا کے کئی کرداروں کی تصاویر اور مجسمے بنائے ۔ اگر وہ قاضی حسین احمد ؒ کو دیکھ لیتا تو یقینا کسی مقرب ترین فرشتے کی تصویر ان جیسی ضرور بناتا ۔ چہرہ اللہ کے نور سے روشن ہوتاتھا اور قاضی حسین احمد ؒ کاچہرہ ایسا ہی تھا جسے دیکھ کر اقبال کے مرد مومن کی وہ چار علامتیں ”قہاری وغفاری و قدوسی و جبروت “ایسے جھلکتی تھیں کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔
وفات سے چند روز قبل جب وہ بم دھماکے کے بعد عافیت سے گھر لوٹ آئے تھے تو گھر میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی گئی ہوئی تھی اور کمرے میں اندھیرا تھا۔ مگر جب میں اُن سے ملنے گئی تو مجھے اُن کا وہ نورانی چہرہ اتنا چمکتاہوا نظر آیا کہ میں حیرت زدہ ہو کر رہ گئی ، اُس وقت وہ مجھے ایسے آغا جان لگے ،جو اپنے رب کے بہت قریب اور اُس کی خاص رحمت سے نوازے گئے بندے ہوں کیونکہ انہوںنے ساری عمر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک وفادار غلام کی مانند زندگی بسر کی اور اُن کی میں چشم دید گواہ ہوں ۔ مجھے ایک بزرگ نے اُن کی وفات کے بعد کہاکہ راحیل بیٹا تمہارے آغا جان اللہ کے ولی تھے اور ولی کی ولایت برقرار رکھنے کے لیے اُس کی زندگی میں کسی کو اُس کی خبر نہیں ہوتی ۔ وہ بڑے خشوع و خضوع سے اللہ کے دربار میں حاضر ی دیتے ۔ آخری دنوں میں اپنے گھٹنوں کی تکلیف اور سانس کی بیماری کی وجہ سے جب مسجد نہ جاپا تے تو ہم سب کو اپنے پیچھے کھڑا کرکے اپنی خوبصور ت آواز میں ایسی تلاوت کرتے کہ لگتا تھاکہ یہ آیات ابھی اسی موقع کے لیے نازل کی گئی ہیں۔ نیوز ویک نے اپنے شمارے کے سرورق پر انہیں جب Saint Qaziکاخطاب دیا تو مجھے اپنے احساس پر یقین ہوگیا۔ دیوبند کے کبار علماءکے گھرانے کے فرد ہوتے ہوئے جن کا نام ہی میرے دادا جان نے حسین احمد اپنے قائد کے نام کی وجہ سے رکھاتھا۔ آغا جان بتاتے تھے کہ میں بچپن میں بولتا نہ تھا اور جب مکرم المقام مولانا حسین احمد مدنی ؒ ہمارے گاﺅں ہمارے گھر تشریف لائے تو میرے داد ا جان نے انہیں کہا کہ حضرت آپ کے نام کی وجہ سے اس کانام رکھاتھامگر اب یہ بولتا نہیں ہے تو انہوںنے اپنا لعاب میرے منہ میں ڈالا تھا اور پھر میرے بیان میں فصاحت و بلاغت رواں ہوئی ۔ لیکن میرے آغا جان مسلک کی قید میں نہ رہ سکے اور اقبالؒ اور مولانا مودودی ؒ کے ایسے پرستار ہوئے کہ علمائے دیوبند کے آگے بھی ہمیشہ سرتسلیم خم رکھا اور حافظ اقبال بھی ٹھہرے اور مولانا مودودی ؒکو بھی اپنامرشد بنائے رکھا۔ شیعہ ، سنی اختلاف کو ایسے ختم کیا کہ امام رضا ؒ کے روضے پر بھی اُن کو مصلے میں امامت کے لیے کھڑا کیاگیا اور راولپنڈی میں جس مدرسہ تعلیم القرآن پر حملہ ہواہے وہ میرے نانا جان کے بھائیوں جیسے دوست مولانا غلام اللہ خان ؒصاحب کا قائم کردہ ہے۔ وہ دیوبندی مسلک کامدرسہ ہے اور میرے آغا جان ہمیشہ اس میں مہمان خصوصی ہوتے ۔ آغا جان نے اس طرح کے سانحات سے بچنے کے لیے کبھی ایک پلیٹ فارم بنایا اور کبھی دوسرا تاکہ لوگ مسالک کی قیود سے باہر نکل کر اُمت کے گلدستے میں متحد ہوسکیں۔
مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کو اپنے بڑے بھائیوں جیسا عزیز رکھا اور مولانا فضل الرحمن کو اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح۔ دینی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات کے باوجود اپنے ذاتی روابط ایسے برقرار رکھے کہ اب چاہے نواز شریف ہوں یا شہباز شریف ،آصف علی زرداری ہوں یا چوہدری شجاعت حسین ، عمران خان ہوں یا محمو دخان، سندھی قوم پرست ہوں یاپختون نیشنلسٹ مجھے اپنے گھر اور خاندان کے افراد ہی لگتے ہیں ۔ او ر وہ بھی سب جواباً وہی احترام کے رویے رکھتے ہیں۔
ورق ورق پر تری حقیقت ، ترا فسانہ ، تری محبت
کتاب ہستی جہاں سے کھولی ، تری ہی یادوں کا باب نکلا
آغا جان ! آپ ساری زندگی نمود و نمائش اور اپنی ذات کو نمایاں کرنے سے بے نیاز رہے مگر آپ کی رحلت پر قوم نے آپ کو ایسا خراج تحسین پیش کیاہے کہ میں اگر صرف کالم نگاروں کے نام ہی لکھنے بیٹھ جاﺅں تو یہ کالم اُسی کی نذر ہوجائے گا۔ کیا اپنے اور کیا نظریاتی مخالف ، آپ کے بارے میں سب کے قلم اتنی خوبصورتی سے چلے ہیں کہ بہت ہی خوبصورت گواہیاں رقم ہوئی ہیں۔ اور واقعی آپ اس شعر کے مصداق ٹھہرے ہیں جو آپ سے ہم نے بارہا سنا....
ہو اگر خودنگر ، خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مرنہ سکے
 لوگ تم سے بہت محبت کریں گے اگر تم نظم جماعت کی اطاعت میں زندگی بسر کرو گے ۔ آغا جان واقعی ہمیں یہاں سے اتنی محبت ملی ہے کہ آپ کا اتنا بڑا غم تقسیم ہوگیاہے ۔ آپ پر جان نچھاور کرنے والے نوجوان آج بھی آپ کا ذکر سنتے ہی بے قرار جذبوں سے ”ہم بیٹے کس کے قاضی کے “ کانعرہ مستانہ بلند کرتے نظر آتے ہیں ۔

ڈاکٹر سمحیہ راحیل قاضی

ڈاکٹر سمحیہ راحیل قاضی

ای پیپر دی نیشن