پاکستانی قوم ایک دوراہے پر ہے۔ ایک فیصلہ کن موڑ جس کے بعد واپسی کا راستہ ناممکن ہے۔ ایک طرف شاہراہ دستور اسلام آباد ہے تو دوسری طرف مال روڈ راولپنڈی ‘ شاہراہ دستور جہاں غیر مسلح پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ تو دوسری طرف فوجی اسٹیبلشٹمنٹ کا مرکزی ہیڈ کوارٹر قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ آئین سے غداری کے مرتکب جنرل (ر) مشرف کو قانون کے مطابق سزا دلوانی ہے یا پھر ماضی کی طرح ”مستقبل کے خواب“ کیلئے دوبارہ سو جانا ہے۔حکومت‘ فوج ‘ عدلیہ میڈیا یا سماجی تنظیمیں جوبھی کہیں یا نہ کہیں عوام نے خود بھی کچھ فیصلے کرنا ہونگے۔ بظاہر فوجی اسٹبلشمنٹ اپنے پیٹی بند بھائی کے دفاع کے لئے مورچہ بند نظر آتی ہے۔ مشرف کے فوج کی حمایت کے سیاسی دعوے پر فوج کے ترجمان کی خاموشی ایک مشرقی دلہن کی خاموشی کی مصداق معنی خیز یعنی ”قبول ہے“ معلوم ہوتی ہے۔ یہ وہی فوجی ترجمان ہیں جو جماعت اسلامی کے منور حسین کے شہیدوں سے متعلق بیان پر ”فوری جوابی کارروائی“ پر مشہور ہوئے۔ مگر اب مشرف کے فوج کی مکمل حمایت کے دعوے پر ہتھیار ڈال کر بیٹھے ہیں۔ حال ہی میں ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں‘ بریگیڈیروں اور کرنیلوں کے ایک اجلاس سے جنرل (ر) مشرف کے خطاب کے بعد بھی فوج کی خاموشی نے پیٹی بند بھائیوں اور ازار بند بھائیوں کے درمیان تنا¶ کو واضح کر دیا ہے۔ تاہم ازار بند بھائیوں کے نمائندہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک جنبش ضرور کی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ مشرف کا فوج کی حمایت کا دعویٰ غلط ہے۔ اس وضاحت کے باوجود لوگوں کی نظریں مال روڈ کی طرف سے وضاحت کی راہ تک رہی ہیں۔ تمام تر جمہوری ٹوٹکے آزمانے کے باوجود (انتخابات‘ نئے چیف جسٹس کی تعیناتی‘ نئے آرمی چیف کی تعیناتی وغیرہ) لوگ اب بھی مال روڈ ‘ راولپنڈی سے سیاسی شاپنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو جب حکومت خود بھی مشرف کے معاملے پر غیر معمولی احتیاط بلکہ کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہو۔ ایف آئی اے کی نیم دلانہ ابتدائی انکوائری سے لیکر غداری جیسے سنگین الزام میں مشرف کی عدم گرفتاری صورتحال کو مزید غیر یقینی بنا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشرف کی گرفتاری کا فیصلہ عدالت کریگی اور خصوصی عدالت کا یہ عالم ہے کہ تین بار عدم پیشی کے باوجود فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ عمل طلب ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت سے لوگ اسے ڈرامہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو اس ملک میں ایک وزیراعظم کو فوجی آمریت میں پھانسی لگانا‘ اسے جلا وطن کرنا یا جمہوری دور میں نااہل کرنا تو آسان ہے مگر ایک غداری کے ملزم سابقہ جرنیل کو خصوصی عدالت میں پیش کرنا بہت مشکل۔ آخر عدالتیں بھی کیا کریں جب حکومت اور استغاثہ ہی مکالمے بازی سے بڑھ کر ملزم کے خلاف کارروائی نہیں کر پاتی ۔
استغاثہ کے وکیل بھی تووہ شخصیت ہیں جو ایک اور کیس میں فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل (ر) اسلم بیگ کی مفت میں وکالت کرتے رہے۔ الزام ان پر بھی سنگین تھا جو غداری کے زمرے میں آسکتا تھا‘ اب ایسے وکیل ایک دوسرے فوج کے سابق سربراہ کو پھانسی دلوانے والے دلائل کیونکر دیں گے اور پھر استغاثہ اصل مقدمہ سے ہٹ کر غیر متعلقہ معاملات (جیسے کے دھمکی اور کمرہ عدالت میں مخالف وکلاءپر ہراساں کرنے کا الزام) کیوں نہ اچھالے۔ اس ملک میں پہلے بھی عدالتیں استعمال ہوئیں اور اب بھی یہ کوشش کی جائے گی۔ بھٹو کی پھانسی اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی واضح مثال ہیں۔ بظاہر اب مشرف غداری کیس بھی خصوصی عدالت کے ذریعے ختم ہونے کو تیار لگتا ہے۔ صرف ایک جج یا پراسیکیوٹر کی طرف سے استعفیٰ آنے کی دیر ہو گی اور پھر معاملہ لٹک جائے گا۔ معاملہ تو ابھی بھی لٹک ہی گیا ہے۔ ملزم مشرف نے آج پیر کے روز بھی پیش نہیں ہونا اور خصوصی عدالت کے ججوں نے بھی ”صاحب دل“ ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ لگتا ہے کچھ خصوصی عدالتیں‘ مخصوص لوگوں کو خصوصی حالات میں ‘ مخصوص انداز کے ساتھ ‘ خاص رعایت دینے کے لیے خصوصی طورپر بنائی جاتی ہیں۔ تین بار حکم عدولی کے باوجود ملزم کو حاضری سے استثنیٰ ملنا‘ ان قیدیوں کے لئے ضرور حیران کن ہو گا جنہیں عدم حاضری پر جیل کی سزائیں سنائی گئیں یا ان کے مقدمے خارج کردئیے گئے۔ مگر عدالتیں بھی کیا کریں۔ حکومت‘ سیاسی جماعتوں‘ سماجی تنظیموں اور میڈیا کے مفتیوں کے رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کون جج آئین اور قانون کی بالادستی کے نعرے کی خاطر اپنی گردن آگے کرے گا۔ کمزورحکومت جو اپنی ہی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے مشرف کے خلاف انکوائری کے دوران شواہد اکٹھے نہ کرسکی اور نہ ہی عدم تعاون کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی‘ سیاسی جماعتیں جو مشرف کے ٹرائل کو ناکام بنانے کے لئے مصنوعی سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سماجی تنظیمیں جو غیر ملکی امداد کی آس میں مشرف کی آئین اور انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش ہیں اور میڈیا کے مفتی جو اپنی دوکان پر معلومات کے مال کی مفت سپلائی کے عوض اپنا دین‘ ایمان اور اصول خفیہ اداروں کے پاس گروی رکھوا دیتے ہیں۔
ایسے میں عوام بھی کیا کریں‘ اپنے روزمرہ کی روزی‘ روٹی اورفکرمعاش کو چھوڑ کر آخر انہیں کیا پڑی کہ آئین اور قانون کے تحفظ کا بیڑہ اٹھالیں۔ آخر یہ کام کرنے کے لئے حکومت اور دفاعی ادارے جو موجود ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر میڈیا اورسیاسی جماعتیں ”بخوبی“ یہ کام انجام دے رہی ہیں ۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ‘ مگر ہم عوام کو ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہئے وہ یہ کہ جب حکومتیں‘ ادارے اور حکمران شخصیات ایک دوسرے کی لوٹ کھسوٹ اور آئین سے غداری پر نظریں بند کرلیں تو پھر عوام کو راست اقدام اٹھانا پڑتا ہے۔ جمہوریت کی کمزوریاں اور ناکامیاں اپنی جگہ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی جرنیل اپنی بندوق کے زور پر اقتدار پر قابض ہو اور جب وہ پکڑا جائے تو اس پر مقدمہ بھی نہ چلے اور پھر کوئی ادارہ خفیہ یا ظاہری طور پر اسے بچانے کی کوششوں میں لگ جائے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ایک قوم جس پر اس کی اپنی فوج حکومت کر سکتی ہے تو پھر اس قو م پر کوئی بھی فوج قابض ہو سکتی ہے۔ یہی ہے وہ دوراہا جس پر آج پاکستانی قوم کھڑی ہے۔ کیا ہم نے مال روڈ پر مستقبل کا سفر طے کرنا ہے یا شاہراہ دستور پر۔ یہ سیاسی نمائندے‘ حکومتیں سماجی تنظیمیں اور میڈیا کی مکالمہ بازی سب کچھ مذکورہ بالا مفادات کے لئے ہے۔ اس مکالمہ بازی پر تالیاں بجانے یا افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے تھیٹر سے باہر نکل کر ان قوتوں کا ساتھ دیں جو آئین اور قانون کے مجرموں کو سزا دلوانا چاہتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ”اﷲ کی مرضی“۔ مذکورہ بالا تمام کردار وہ لوگ ہیں جو ملک پر مشکل وقت پڑنے کی صورت میں ائرپورٹوں پر ”بین الاقوامی روانگی“ کے لا¶نجوں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک طرف مال روڈ تو دوسری طرف شاہراہ دستور۔ مگر مذکورہ بالا کرداروں کے لئے تیسرا راستہ بھی کھلا ہوتا ہے.... آکسفورڈ سٹریٹ وغیرہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ”پیٹی بند بھائی“ زیادہ متحد ہیں یا آئین اور قانون کی بالا دستی کے دعویدار ”ازار بند بھائی“ یا تو پیٹی کسی جائے گی یا پھر ازار بند ڈھیلا پڑیگا۔
”پیٹی بند بھائی ....ازار بند بھائی“
”پیٹی بند بھائی ....ازار بند بھائی“
Jan 06, 2014