2013ءکیسا تھا 2014ءکیسا ہوگا

2013ءکیسا تھا 2014ءکیسا ہوگا

2013ءرخصت ہوا 2014ءکا آغاز ہوچکا ۔ نیا سال محترم قارئین کے لیے مبارک ہو۔ 2013ءکے آغاز تک عوام گزشتہ حکومت سے تنگ آچکے تھے البتہ ان کو اُمید تھی کہ 2013ءمیں ہونے والے انتخابات ان کی خوشیوں کا سبب بنیں گے۔ عوام نے ان انتخابات میں بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ حصہ لیا۔ نئے حکمرانوں نے امیروں سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے عوام کو نچوڑنا شروع کردیا۔ جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ کردیا۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے کڑی شرائط تسلیم کرلیں اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی کہ عوام کے خواب چکنا چور ہوگئے اور ان کی زندگی عذاب بن کررہ گئی۔ حکمرانوں کا قومی فرض تھا کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرتے اور عوام کو ریلیف دیتے مگر تاجر حکمرانوں نے تاجروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا دفاع کیا۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے مہنگائی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ بلاول بھٹو نے سیاست میں فعال ہونے کا اعلان کردیا۔
حکومت نے نوٹ چھاپ کر سرکلر ڈیٹ ادا کیا جس سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی۔ نوجوانوں کے لیے قرضہ سکیم کا اعلان ہوا اس مقصد کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے۔ ابھی تک اس سکیم کے اثرات سامنے نہیں آئے۔ 2013ءمیں مجموعی طور پر غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ ڈالر 107 روپے تک پہنچ گیا۔ پاکستان کے مسائل اندرونی تھے مگر خارجی محاذ پر سرگرمیاں زیادہ نظر آئیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے چھ ماہ میں پانچ دورے کیے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرکے پہلی بار امریکی ڈرون کا مسئلہ اُٹھایا۔ جنرل اسمبلی نے ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کے خلاف قراردیا۔ وزیراعظم نے افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنانے کے لیے خصوصی دلچسپی لی۔ پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان 14 سال بعد ملاقات ہوئی۔ چین نے 1.5 ارب ڈالر کا نیو کلر پاور پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا جس میں کک بیکس کی غیر مصدقہ رپورٹیں گردش میں ہیں۔ توقع ہے کہ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ 2014ءکے آغاز میں پاکستان کا دورہ کریں گے اور پاک بھارت تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
2013ءتبدیلیوں کا سال ثابت ہوا۔ ایک جمہوری حکومت نے نئے منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔ پاکستان کے صدر، چیف جسٹس اور آرمی چیف تبدیل ہوئے۔ عدلیہ بدستور آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے چیخ و پکار کرتی رہی اور حکومتی فیصلوں کو کالعدم قرار دیتی رہی مگر حکومت نے اپنا قبلہ درست نہ کیا۔ حکومت ابھی تک عوام کو گڈ گورنینس نہیں دے سکی۔ امن و امان میں بہتری نہ آئی۔ کراچی میں فوجی آپریشن کے بعد حالات بہتر ہوئے۔ دہشت گردی کے خاتمے اور طالبان سے مذاکرات کے لیے آل پارٹیز کانفرنس ہوئی۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے متفقہ فیصلہ ہوا مگر مذاکرات کا آغاز نہ ہوسکا۔ قومی سلامتی پالیسی تشکیل دینے کے لیے کئی اجلاس ہوئے مگر قومی سلامتی کا حتمی ڈرافٹ سامنے نہ آیا۔ مجموی طور پر 2013ءکا سال کئی حوالوں سے خوش آئند اور کئی حوالوں سے تلخ رہا۔ عوام کو ریلیف نہ ملا بلکہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔نئے حکمران عوام کی اُمیدوں اور توقعات پر پورے نہ اُترسکے۔ عوامی محرومی اور مایوسی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا گراف نیچے آیا اور وہ اپنے مضبوط سیاسی گڑھ فیصل آباد میں ضمنی انتخاب ہار گئی۔
2013ءمیں چونکہ ایسے بنیادی اور ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے گئے اس لیے 2014ءبھی عوام کے لیے سخت سال ثابت ہوگا۔ اگر امیروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاتا تو بجٹ کا خسارہ کم ہوتا اور 2014ءمیں عوام کو ریلیف ملتا۔ زراعت اور صنعت پر توجہ دی جاتی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوتے۔ معاشی لحاظ سے 2014ءبھی تجارتی خسارے، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کا سال ثابت ہوگا۔ 2014ءمیں طالبان سے مذاکرات یا فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوجائے گا کیونکہ پاکستان اس سلسلے میں مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ 2014ءمیں امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں گی اور پاکستان عالمی دباﺅ سے باہر نکل آئے گا۔ البتہ ڈرون حملے جاری رہیں گے کیونکہ سکیورٹی کے ادارے دہشت گردوں کو شمالی وزیرستان سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا فیصلہ 2014ءمیں ہوجائے گا۔ افواج پاکستان ریٹائرڈ جنرل کی بجائے پاکستان، آئین ، عدلیہ اور عوام کی تمناﺅں کا ساتھ دیں گی۔ آمر کو عمر قید کی سزا ہوگی اور آئندہ کوئی جرنیل آئین توڑنے کی جرات نہیں کرے گا۔ پاکستان کے مستقبل کے لیے آمر جرنیلوں کا راستہ روکنا لازم ہے۔
تحریک انصاف کے لیڈروں کو شدت سے احساس ہے کہ مئی 2013ءکے انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چرالیا گیا۔ تحریک انصاف کی کوشش ہوگی کہ وہ سٹریٹ پاور استعمال کرکے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو مڈٹرم انتخابات کے لیے مجبور کرے۔ اگر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف 2014ءمیں بھی عوام کو ریلیف نہ دے سکے تو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری مل کر حکومت کا تختہ اُلٹ بھی سکتے ہیں۔ اگر حکمرانوں نے آئین کی بالادستی کو دل سے تسلیم نہ کیا تو عدلیہ کے ساتھ حکومت کے تعلقات کشیدہ رہیں گے۔ فوج کے جرنیل اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے قومی مسائل جمہوریت اور سیاست سے ہی حل کیے جاسکتے ہیں لہذا فوج منتخب حکومت سے تعاون کرے گی۔ البتہ بیڈ گورنینس کی وجہ سے اگر عوام سڑکوں پر نکل آئے تو فوج عوامی احتجاج کو کچلنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ 2014ءمیں بلدیاتی انتخابات ہوں گے اگر یہ صاف اور شفاف نہ ہوئے تو احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
2014ءمیں میاں نواز شریف کو بڑی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور عوام کو اچھی حکومت فراہم کرنا ہوگی۔ مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنا ہوگا۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ 2014ءتک حکومت کو مناسب وقت مل چکا ہوگا۔ حکومت کی کارکردگی اگر بہتر نہ ہوئی اور عوام کی مایوسی اور بے چینی میں اضافہ ہوا تو 2014ءحکومت کی تبدیلی کا سال بھی بن سکتا ہے۔حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے مگر اس کا انحصار حکومت کی کارکردگی پر ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن