گندم کی فصل پاکستان ہی نہیں دنیا میں بھر میں غذائی تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں یہ اہم جنس 2کروڑ چالیس لاکھ ٹن کی پیداوار کے ساتھ عوام کے لئے آٹے جیسی آئٹم کو پورا کرتی ہے اگرچہ گذشتہ سات آٹھ برسوں کے دوران گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوا مگر پھر بھی عوامی حلقے و سرکاری حلقے سوچتے ہیں کہ آٹے کی مہنگائی کیوں ہو رہی ہے؟ کوئی شخص اس بات کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ گندم کی قیمتوں کا براہ راست تعلق آٹے کی قیمتوں سے ہے اور جوں جوں گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے آٹے کی قیمت اُسی تناسب سے اوپر چلی جاتی ہے۔ گندم کی قیمت اُوپر کیوں جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں امدادی قیمت کے فلسفہ کو جاننا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو یہ یقین دلانا ضروری ہوتا ہے کہ اُسکی گندم مناسب داموں پر اُٹھائی جائے گی اور اُسے نقصان نہیں ہونے دیا جائے گا عمومی طورپر یہ ایک اچھی سوچ ہے اور مختلف حکومتیں اپنے اپنے وقتوں میں مختلف شرح سے اسکا نرخ بڑھاتے رہتے ہیں اور پھر محکمہ خوراک اعلان کردہ نرخوں کے مطابق ایک مخصوص مقدار کسانوں سے خرید لیتے ہیں جبکہ پاسکو بھی گندم کی خریداری کرکے کسانوں کی مدد کرتاہے گند م کی امدادی قیمت کا یہ سسٹم آہستہ آہستہ معاشی کی بجائے سیاسی ہوتا گیا جس سے زرعی نظام کی باقی خامیوں کو دور کرنے کی بجائے یہ خیال کیاجانے لگا کہ گندم کی امدادی قیمت بڑھانے سے کسانوں میں حکومتی پارٹی کی ساکھ مضبوط ہوگی اس سوچ کو غلط ثابت کرنے کے لئے ہم پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور کی طرف چلتے ہیں جنہوں نے پانچ سالوں میں گندم کی امدادی قیمت 625/روپے فی 40کلو گرام سے بڑھا کر 1200/روپے کر ڈالی ۔ گندم کی قیمت ڈبل کرنے سے 365/روپے میں بکنے والا 20کلو گرام کا تھیلہ 730/روپے تو ہو ہی جاتا ہے مگر پیپلز پارٹی کو اسکا کیا فائدہ ہوا۔ زرعی و دیہی علاقوں میں اُسکو پنجاب بھر میں ووٹوں کی صورت میں کچھ نہیں ملا۔ زرعی نظام کو بہتر بنانے کے لئے کھاد کے ملکی کارخانوں کی چلانا سب سے اہم ہے یہ کیا اچھا لگتا ہے کہ اپنے کارخانوں کو گیس و بجلی کی فراہمی بند کرکے امپورٹ پر سارا زور ڈالا جائے اور پھر اُسے کمائی کا ذریعہ بناکر کسانوں تک پہنچایاجائے دوسرے نمبرپر اچھے کوالٹی بیچوں کی فراہمی کا نظام بھی ہمارے ہاں مفقود ہے جس سے پیداوار پر منفی اثرات ہمیں دیناکے مقابلہ میںپیچھے رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت ہی کی مثال لیںجہاں زرعی افسر 24گھنٹے کام کرتے ہیں دفتر اور فیلڈ میں اپنی موجودگی سے کسانوں کو عمدہ گائیڈنس فراہم کرتے ہیں اور نتائج دیتے ہیں آج بھارت میں ریکارڈ فصل پیداہوتی ہے اور اُنکے پاس ذخیرہ شدہ گندم کی مقدار پاکستان کی تین فصلوں کے برابر ہے۔ ہمیں مکمل طورپر زرعی ملک بننے کیلئے اپنے زہن کو زراعت کی طرف راغب کرناہوگا۔ اگر حکومت کسانوں کو زرعی ماحول ہی بہتر کردے کھاد بیچ، ڈیزل، ٹریکٹراور بجلی میں براہ راست سبسڈی دے دے تو اُنکی غربت دور ہوسکتی ہے اور وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتے ہیں۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے دو ماہ پہلے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے مطالبہ کیا تھا کہ شہری آبادی کو آٹے کی مہنگائی سے بچانے کے لئے گندم کی امدادی قیمت کو 1200/روپے فی 40کلوگرام سے بڑھنے نہ دیاجائے اور اسے منجمند قرار دے کی اپنی توجہ کسانوں کی حالت زار بہتر بنانے پر زرعی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لانے پر حق داروں کو اُن کا حق یعنی سستی کھادکوالٹی بیچ اور دوسرے لوازمات براہ راست پہنچانے پر خرچ کی جائے تاکہ دونوں یعنی شہری آبادی و زرعی آبادی کو معاشی طورپر مضبوطی میسر آسکے۔ یعنی شہروں میں آٹا لوگوں کی پہنچ میں رہے اور وہ سُکھ کا سانس لیں۔ وفاقی حکومت نے ہماری پریس کانفرنس کے ایک ہفتہ بعد ہی تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو ہدایات جاری کردی تھیں کہ گندم کی امدادی قیمت 1200/روپے ہی رہے گی جبکہ چیف سیکرٹری حضرات اپنے اپنے صوبوں میں کسانوں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کریں جن کا ذکر اوپر کیاگیا ہے اسطرح موجودہ حکومت کا یہ کام اچھا ہی کہلا سکتا ہے ۔