قحط الرجال

باب العلم حضرت علی ؓ سے ایک شخص نے پوچھا’’نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺکے خسرِ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ المسلمین بنے، ہر شخص نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، کسی نے اُن کی خلافت کو نہیں للکارا اور ہر کوئی اُن کی خلافت پر مکمل طور پر متفق تھا۔اس کے بعد نبی کریم ﷺ کے دوسرے خسر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے خلافت کا منصب سنبھالا، دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان حضرت عمرؓ کی خلافت پر بھی مکمل طور پر متفق تھے اور کسی نے آپ کی خلافت کو چیلنج کرنے کی جرات کی نہ ہی کوئی آپ کی خلافت کے خلاف اٹھ کر کھڑا ہوا؟آپ بھی دامادِ رسولﷺ ہیں، آپ رسول اللہ کے چچا زاد بھائی بھی ہیں، آپ حضرت فاطمہ الزہرہ ؓکے شوہر بھی ہیں، آپ حسن ؓو حسینؓ کے والد بھی ہیں،آپ فاتح خیبر بھی ہیں،لیکن اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ آپ خلیفہ بنے تو آپ کی خلافت پر تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا؟‘‘ اس طویل تمہیدی سوال پر حیدر کرارؓ کے لبوں پر تبسم بکھر گیا۔ آپ نے مختصرا جواب دیا ’’سادہ سی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ہم جیسوں پرامیر تھے اور میں تم جیسوں پر حاکم بنایا گیا ہوں‘‘۔ چودہ سو سال پہلے علم کے دروازے سے سوال کرنے والے کو بھرپور اور جامع جواب ہی نہیں ملا بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ آنے والوں زمانوں کیلئے حاکم اور عوام کے درمیان باہمی تعلق کا سرِ نہاں بھی کھل کر سامنے آگیا۔ پاکستان چونکہ گزشتہ سات دہائیوں سے براہ راست امریکی اثر میں ہے،یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں جس طرح کا حکمران آیا، اُس کا اثر لے کر ہمارے حکمران اور ہمارے عوام بھی ویسے ہی ہوگئے۔ مثال کے طور پر جس وقت پاکستان کو لیاقت علی خان جیسی اعلیٰ پائے کی مخلص اور نڈر قیادت میسر تھی تو اُس وقت امریکہ کو ہیری ایس ٹرومین جیسے بلند پایہ اور مدبر لیڈر کی صدارت نصیب تھی، لیکن اس کے بعد تو جیسے قسمت ہی خراب ہوگئی۔
یہ بھی تاریخ ہے کہ امریکہ میں ’’ری پبلکن‘‘ پارٹی کا رویہ اور سوچ ہمیشہ جنگجوانہ رہا ہے،اس لیے ری پبلکن جب بھی امریکہ میں اقتدار میں آئے تودنیا میں جنگوں نے زور پکڑا، انسانی خون کی ندیاں بہائی گئیں اوردنیا بھر میں علاقے ،خطے اور اقوام مزید تقسیم ہوتے چلے گئے ۔ اس کے برعکس امریکہ میں جب ڈیموکریٹس برسرِ اقتدار آئے تو اُنہوں نے زیادہ تر وقت ری پبلکن کا ’’حربی‘‘ گند صاف کرنے میں صرف کیا۔یوں امریکہ میںمختلف ادوار میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کی بدل بدل کر حکومتیں آتی رہیں اور پاکستانی بھی جنگی اور غیر جنگی مزاج کے درمیان پینڈولم بنے رہے۔ مثال کے طور پر جب پاکستان میں ایوب خان ایوانِ صدر کے مکین تھے تو امریکہ میںری پبلکن کا آئزن ہاور جیساسرد جنگ کا ماہر رہنما صدر تھا، جس کے دور میں روس امریکہ سرد جنگ اپنے پورے عروج پر تھی۔ستر کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم تھے تو اس وقت ڈیموکریٹس کے جمی کارٹر امریکہ کے صدر تھے، اس کے بعد جنرل ضیاء الحق پاکستان کے تیسرے فوجی صدر بنے توری پبلکن کے رونالڈ ریگن امریکہ کے صدر بنے، جن کے دور میں پاکستان کے شمال میں واقع افغانستان میں روس کے خلاف اُس جنگ کا آغاز کیا گیا، جس کا بویا ہم آج بھی کاٹ رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد بینظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں تواس وقت اگرچہ امریکہ میں ری پبلکن کے جارج بش سینئر صدر تھے، تاہم بینظیر بھٹو کے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے وقت امریکہ میں بل کلنٹن کی صورت میں ایک مرتبہ پھر ڈیموکریٹس کی حکومت آچکی تھی۔ یہی کچھ میاں محمد نواز شریف کے پہلے دو ادوار میں ہوا، میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا پہلا دور جارج بش سینئر اور دوسرا دور ڈیموکریٹس کے بل کلنٹن کے ساتھ گزارا، لیکن جیسے ہی ایک مرتبہ پھر دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی ضرورت پیش آئی تو ری پبلکن امریکہ میں مقبولیت حاصل کرنے لگے،اِدھر جنرل مشرف نے نواز شریف کو ہٹاکر اقتدار پر قبضہ کیا ، جس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد امریکی انتخابات میں ری پبلکن کے جارج ڈبلیو بش جونیئر ڈیموکریٹس کے الگور کو ہرا کر امریکہ کے نئے ’’جنگ پسند‘‘ صدر بن گئے۔آٹھ سال بعد امریکہ میں ڈیموکریٹس نے زور پکڑا تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں امریکی حمایت یافتہ غیر جمہوری حکومتوں کا بھی ایک ایک کرکے انجام سامنے آنے لگا، پاکستان میں مشرف دور کا خاتمہ  اور عرب بہار کو اِسی تناظر میں دیکھا جائے تو صورتحال مزید واضح ہوجاتی ہے۔ ایک اچھے حکمران کی خواہش کرتے ہوئے کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم خودکتنے اچھے ہیں؟ ہم خود کتنے ایماندار اور قانون پسند ہیں؟پاکستان میں قائداعظم ؒ کی فراست، دیانت، ذہانت اور گڈگورننس کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں، لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ قائد اعظمؒ کے دور میں عوام کیسے تھے؟ قائداعظم کے دور میں عوام وہ تھے، جنہوں نے یہ ملک حاصل کرنے کیلئے اپنی جان اور مال کی صورت میں لاکھوں قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہ کیاتھا اور دوسری جانب ہم ہیں کہ خود تو بدلتے نہیں اور حکمرانوں کو بدلنے کا مشورہ دیتے ہیں، خود تو ہم ہر وقت شارٹ کٹ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکمران کرپشن کریں نہ کریں، ہم خودتو امریکی ویزے،ڈالر اور امداد کیلئے ہر ذلت برداشت کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران امریکہ کے تلوے نہ چاٹیں! آپ ہی بتائیں کہ قحط الرجال اور کسے کہتے ہیں؟

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن