عرب و عجم ،پراکسی جنگ سے آگے

Jan 06, 2016

اسد اللہ غالب

اب تک مسلمان ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ لڑتے رہے ہیں، اب آمنے سامنے تن کرکھڑے ہو گئے ہیں۔

پاکستا ن نے اس مسئلے پر گہری تشویش کاا ظہار کیا ہے، مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے قومی ا سمبلی میں دیئے گئے پالیسی بیان میں ایران اورسعودی عرب کو تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
میں مئورخ نہیں ہوں ، سامنے کی بات ہے کہ عراق نے ایران پر چڑھائی کی تھی، عرب ممالک عراق کی پس پشت حمائت کر رہے تھے۔عراق نے ایک جوا اور کھیلا کہ کویت پر قبضہ کر لیا جس سے خطے کی لڑائی میں پرائی طاقتوںکو کودنے کا موقع مل گیا۔
ایک باریک کام اوربھی کیا گیا کہ پاکستان کا کوئی تعلق نائن الیون سے نہیں تھا مگر اسے دہشت گردی کے پاٹ میںپیس کر رکھ دیا گیا،ا ٓج پاک فوج کی مہارت کا لوہا ایک دنیا مانتی ہے مگر کون جانتا ہے کہ بارہ تیرہ برس پر پھیلی لڑائی میں پاک فو ج کاجسم کس قدر چھلنی ہوچکا ہوگا۔اسے بہر حال کسی دوسرے مسلمان ملک کی امداد کے قابل نہیں چھوڑا گیا، اگر میرا اندازہ غلط ہو تو میں اللہ کا شکر کروں گا۔ اس لئے کہ جب ہم ایٹم بم بنا رہے تھے تو دنیانے کہا کہ یہ اسلامی بم ہے، ہم نے بھی کہا کہ یہ بم مسلمان ملکوں کو بیرونی جارحیت اور استعمار سے محفوظ رکھے گا۔ اب ایٹم بم تو ہمارے پاس موجود ہے مگر ہمیں کسی کی مدد کرنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا، سعودی عرب نے چپکے سے اڑھائی ارب ڈالر دان کئے، اسے یمن میں ہماری ضرورت پڑی تو ہم نے انکار کر دیا، بحرین والے بھی آئے مگر ہم نے کہا کہ بوڑھے فوجی بھرتی کر کے لے جائو، عرب ممالک سوچتے تو ہوں گے کہ اگر انہوںنے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں حصہ ڈالا تھا تو کتنی بڑی امیدیں لگا لی تھیں۔
امت مسلمہ میں تفرقہ کی کمی کبھی نہیں رہی ، اوپر سے ہنود ویہود کی سازشیں، اب تو کوئی دو مسلمان ملک ایک پیج پر اکٹھے نظر نہیں آتے، سعودی عرب کے اتحاد سے پاکستان بھی نکلنے کی کوشش میں ہے۔ ہمارا میڈیا اس اتحاد کو سنی کا نام دیتا ہے اوراسے شیعہ ایران کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ویسے جب تک ایران میں بادشاہت رہی، ایسی کوئی تفریق نہیں تھی، ہمارے لڑاکا جہاز رات کو ایران کے اڈوں پر پارک ہوتے اور صبح بھارت پر بمباری کرنے نکل جاتے۔مصر میںجمال عبد الناصر کا طوطی بولتا تھا، شام میں حافظ الا سد چھایا ہوا تھا ، سعودی عرب کے شاہ فیصل کو عالم اسلام کے تاجدار کی حیثیت حاصل تھی، لیبا کا کرنل قذافی، اردن کے شاہ حسین اس کہکشاں میں نمایاں تھے۔مڈل ایسٹ میں اسرائیل سے ضرورلڑایاں ہوتی تھیں مگرلبنان کے سوا کہیں خونریزی نہ تھی اب تو شہر شہر قریہ قریہ کربلا بنا ہوا ہے۔
آج کے بحران کی ابتدا یمن سے ہوئی جہاں سعودی عرب کے بقول ایرانی مداخلت نے سعودی سیکورٹی کے لئے خطرات کھڑے کر دیئے تھے۔ یمن کی آگ کوبھڑکنا ہی تھا، سعودی عرب میں دہشت گردی شروع ہو گئی، اس پر سعودی عرب نے سختی کی اور بعض عناصر کو سزائیں دیں تو ایک پھانسی پرا س کی اور ایران کی ٹھن گئی۔ تہران میںسعودی سفارت خانے کو جلا دیا گیا، سعودی عرب نے سفیر واپس بلا لیا، بحرین اور کویت نے بھی ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔
اگر ایران اپنے انقلاب کو ملک کے اندر تک محدود رکھتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ایران کا اپنا مسلک ہے ، سعودیہ کاالگ مسلک ہے۔ شام میں عالمی مداخلت ہو ئی تو ایران نے بشار الاسد کا ساتھ دیا اور سعودی عرب ، باغیوںکے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔ترکی بھی باغیوںکے ساتھ تھا، امریکہ ا ور نیٹو بھی کھلم کھلا باغیوں کی مدد کر رہے تھے مگر اس مناقشے کانزلہ سعودیہ اور ایران پر گرا جس کے بعد سے ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے۔
پراکسی جنگوں سے عرب و عجم کو اندازہ ہو جانا چاہئے تھا کہ کوئی کسی کو زیر نہیں کر سکتا، یہ بادشاہوں کا دور نہیں ہے اور لشکروں کے ذریعے سلطنتوں کو زیر وزبر نہیں کیا جاسکتا۔ اب سوائے جگ ہنسائی کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔ایران اپنی جگہ پر ایک طاقت ہے، پرانی طاقت ہے، اور سعودی عرب اوراس سے ملحقہ ریاستیں اپنی جغرافیائی حیثیت کی مالک ہیں۔ سعودی عرب کو تقدس کا درجہ بھی حاصل ہے کہ یہ حرمین شریفین کا خادم ہے۔ یہ اعزاز کوئی چھین نہیں سکتا۔الا یہ کہ سعودی عرب کو فوجی طات سے روند ڈالا جائے، فی زمانہ کوئی اس امر کی اجازت نہیں دے گا ۔ سعودی عرب صحرا ضرور ہے مگر اس کی دفاعی حیثیت ریت کی مانند نہیں ، فولاد کی طرح مضبوط ہے۔ ایران کی طاقت توبہر حال ایک مسلمہ امر ہے مگر خدا نہ کرے کہ اس خطے میں طاقت کے استعمال کی نوبت آئے ۔
پاکستان سے امیدیں تو باندھی جا رہی ہیں کہ یہ بیچ بچائو کرائے ،مگر ہمارے ہاں قیادت کا فقدان ہے ، نہ یہاں کوئی بھٹو ہے، نہ ایوب، نہ ضیا الحق۔نواز شریف ،سعودیہ کے قریب تو ہیںمگر ایران کو کیسے سمجھائیں، راحیل شریف کا قد کاٹھ ہے مگر ان کی ٹانگیں زرداری کھینچے چلے جا رہے ہیں، اعتزاز احسن بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتے، یہ لوگ خود بھی کسی جوگے نہیں اور کسی دوسرے کا اثر ورسوخ بھی برداشت نہیں کر پاتے، مگر زرداری کو ایران بھیج کر دیکھ لیا جائے اور اعتزاز احسن ان کے ساتھ ہو لیں، شاید بات بن جائے اور آگ کو بھڑکنے سے روکا جاسکے۔ان تلوںمیں تیل کہاں۔
لے دے کے انہی طاقتوں سے امید کی جا سکتی ہے جنہوںنے یہ آگ لگائی ہے، گائوں کا چودھری بھی پہلے تو لوگوں کو آپس میںلڑاتا ہے، پھر انہیں تھانے کچہری پھنساتا ہے اور جب وہ تھک جاتے ہیں تو یہی چودھری ان کی مدد کو آتا ہے۔
روس کو ایران پر وزن ڈالنا چاہئے اور امریکہ آگے بڑھ کرسعودیہ کوٹھنڈا کرے۔ چین کس کو کہہ سکتا ہے، یہ چین ہی جانتا ہے مگر چین کو اصل کردار ادا کرنا چاہئے ، وہ نتیجہ خیز مداخلت کر سکتا ہے۔چین کی ایک عزت ہے کہ وہ عالمی معاملات میں پارٹی نہیںبنتا۔
عالم ا سلام کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ باہم دست گریباں ہو ں گے تو اغیار ہنسیں گے اور تماشہ دیکھیں گے، تو ہم تماشہ کیوںلگائیں۔جو فریق جہاں ہے ، وہاں سے آگے نہ بڑھے تو معاملات سلجھنے کا چانس زیادہ ہے ور نہ تری بربادیوں کے چرچے ہیں آسمانوں میں۔

مزیدخبریں