شاہ عنایتؒ اللہ جھوک (سندھ) میں 1655 میں پیدا ہوئے تھے۔ انکی تعلیم و تربیت‘ صوفی والد مخدوم فضل اللہ اور دیگر وقت کے بڑے بڑے عالموں اور مجہتد صوفیاء کے ہاتھوں ہوئی۔ شاہ جہاں آباد (ہندوستان) میں انہوں نے اپنا فلسفہ حیات یعنی اپنی آرزوئے انقلاب و منصوبہ خدمت مظلومین اپنے استاد گرامی شاہ غلام محمد کے حضور پیش کر دیا۔ اس نظریہ میں ایسا انقلابی اثر تھا کہ جناب استاد شاہ غلام محمد اپنے شاگرد کے معتقد بن گئے اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے اس نئے مرشد کے ساتھ چل پڑے۔ لگ بھگ 1713ء میں جب شاہ عنایت ٹھٹھہ (سندھ) میں واپس آئے تو یہ وہ زمانہ ہے جب ہند کا حکمران اورنگ زیب کا بیٹا فرخ سیر تھا اور سندھ پر میاں یار محمد کلہوڑا بادشاہی کر رہا تھا۔ یہ مغل دور کی زوال پذیری کا دور تھا۔ کسانوں کے حالات بہت ابتر تھے۔ کلہوڑوں کی حکومت مغل فرماں رواؤں کو محصول ادا کرتی تھی۔ مفت خور طبقہ امیروں‘ نوابوں‘ پیروں کی صورت میں مسلط تھا۔ کسان کی فصل میں سے جاگیردار وڈیروں کے علاوہ سرکاری کارندے‘ ملا اور سید بھی اپنا حصہ لے جاتے تھے۔ انقلابی صوفی شاہ عنایتؒ نے بے نوا مظلوموں اور کچلے ہوئے انسانوں کی حمایت و نصرت کیلئے ظالموں اور جبارین و مستکبرین کیخلاف ٹکرانے کی نئی روایت قائم کی۔ آپ ٹھٹھہ سے اپنے آبائی گاؤں جھوک میں آگئے۔ یہاں آپ نے اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کیلئے خانقاہ قائم فرمائی جو تھوڑے ہی دنوں میں زہد و عرفان کا مرکز بن گئی۔ یہاں آپ نے ایک انوکھی کسان تحریک کا اس طرح آغاز فرمایا کہ خانقاہ جھوک کے ’’دائرہ‘‘ (اجتماعی کاشتکاری کا علاقہ) کیلئے اپنی آبائی زمین مظلوموں اور بے زمین لوگوں کیلئے عطیہ کر دی۔ پھر تھوڑی زمین کے مالک اور ہاری لوگ آ شامل ہوئے۔ اس دائرہ میں زمین‘ مال مویشی ہل بیل وغیرہ ساری اشیاء وہاں کے سب لوگوں کے اور سب کیلئے تھے۔ جھوک کے اس نئے سماج میں مرشد سمیت سب مل کر محنت مشقت کرتے تھے۔ جھوک اجتماعی کاشتکاری کا پہلا مرکز تھا جہاں فقرا‘ ہاری‘ کسان‘ مزدور سب پیداواری عمل میں برابر حصہ لیتے تھے اور ایک خاندان کی طرح فصلوں کی پیداوار سے مستفید ہوتے تھے۔ صوفی شاہ عنایتؒ کی یہ انقلابی تحریک ’’زمین اللہ جی آ ہے‘ جیکو کھیڑے‘ سوکھائے‘‘… مطلب یہ کہ زمین اللہ کی ہے جو اگائے وہ کھائے کے نعرے تلے تیزی سے پھیل رہی تھی۔ دائرے کے کاشتکار‘ جاگیردار وڈیروں کے قیدی ہاریوں کے مقابلے میں بہت خوشحال ہو چکے تھے۔ اس پر شاہ عنایتؒ کیخلاف مقامی زمینداروں اور سادات گدی نشینوں کے سینوں میں دشمنی کے شعلے بھڑک اٹھے۔ دشمنوں نے محسوس کر لیا کہ اس انقلابی فتنے کا تدارک نہ کیا گیا تو سندھ میں جاگیردارانہ نظام خطرے میں پڑ جائیگا۔ ان لوگوں نے مل کر صوبیدار ٹھٹھہ سے فریاد کی… تھوڑے عرصہ بعد اعظم خاں گورنر ٹھٹھہ اپنے لاؤ لشکر کو لیکر صوفی شاہ عنایتؒ کے مرکز پر بھر بڑے زور سے حملہ آور ہوا۔ سرکاری درباری شاعر اور فتویٰ دینے والے ملاؤں کی فوج علاوہ تھی… پورے چار مہینے محاصرہ جاری رہا… جاگیردار میاں یار محمد کلہوڑہ نے دغا سے کام لیا اور قرآن کو درمیان میں ضامن لاکر‘ سائیں صوفی ولی اللہ کے سامنے صلح کی تجویز پیش کر دی۔ 7 جنوری 1718ء کو قرآن ضامن دینے والے فریب کار جاگیردار جلادوں نے انقلابی صوفی شاہ عنایتؒ کا سر قلم کر دیا اورانکے شہر کو آگ لگا دی۔ وہ جھوک‘ وہ جنت… سب راکھ ہو کر سیلاب خون میں ڈوب چکا تھا۔ تبدیلی کے قانون الٰہی کے تحت فیوڈل سماج بھی ایک دن پاکستان سے مٹ جائیگا۔ جس طرح ماؤ انقلاب سے جاگیرداری نظام کو صنعتی نظام نے مٹا کر رکھ دیا۔ (صلاح الدین شہبازی)