جج،وکلاءاور اشتہار

ایک گاﺅں میں سانپوں کی تعداد بہت زیادہ تھی سانپوں کے ڈسنے سے بہت سی اموات ہو چکی تھی۔ گاﺅں والے اس سے پریشان تھے ۔ایک جمعہ کو مسجد اما م نے کہا آﺅ آج ہم سب مل کر دعا کریں جس پر سب نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے دعا کی ، یا اﷲ آپ ان سانپوں کو بے شک زندہ رکھیں لیکن ان کا زہر نکال دیں کیونکہ ان کے ڈسنے سے موت ہو رہی ہیں دعا کے بعدگاﺅں والوں کی یہ دعا قبول ہو گئی ۔ اس کے بعد انسانوں کا سانپوں کے زہر سے مرنے کا عمل ختم ہو گیا ۔ جب سب کو یقین ہو گیا کہ سانپوں کے ڈسنے سے کوئی مرے گا نہیں تو لوگوں نے رسیوں کے بجائے سانپوں کی چار پائیاں بنانی شروع کر دیں۔ اب تمام سانپوں نے بھی خدا سے اپیل کر دی کہ ہمارا زہر کیا نکلا ، اب ہر کوئی ہمیں رسیوں کے طور پر استعمال کرنے لگا ہے۔جس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے ۔اس سے ہمیں نجات دلائی جائے ۔ فرشتہ زمین پر اترا اور سانپوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ سچ ہے کہ آپ کا زہر ختم ہو چکا ہے لیکن آپ کی شو ں شا ں ختم نہیں کی ۔آپ اس کا استعمال کیا کریں ۔ ایسا ہی حال اب ہمارے ہاں کی جو ڈیشری کا ہے ۔ قانون ہے لیکن اس سے کوئی ڈرتا نہیں ۔ لگتا ہے جیسے سانپوں سے زہر نکال دیا تھا اسی طرح قانون کا خوف دلوں سے نکال دیا گیا ہے ۔ اب ٹافیوں کی فروخت کےلئے اشتہار میں ججوں اور وکلا کو پیش کیا جارہا ہے ۔ اگر یقین نہیں ہے تو آجکل ایک کمپنی ٹافیوں کا اشتہار میڈیا پر دیکھ لیں ۔ ایک ٹیبل پر ججز اور وکلا کو بیٹھا دکھاتے ہیں کہ یہ جج اور وکلا صاحب ہیں ۔یاد رہے کہ اس اشتہار میں یہ جج سول کورٹ یا ہائی کورٹ کا نہیں سپریم کورٹ کا جج دکھاتے ہیں ۔پھر دکھاتے ہیں کہ جج اور وکلا کے اندر کا بچہ باہر آتا ہے ۔ ایسے میں یہ جج اور وکلا صاحب بچوں کی طرح روتے ہوئے دکھاتے ہیں پھر ان کے منہ میں رنگ برنگی ٹا فیاں دکھاتے ہیں ۔ یہ اشتہار تین چار ہفتے سے چل رہا ہے لیکن کیا مجال کہ کسی نے اس پر سو موٹو لیا ہو یا کسی وکیل نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا ہو ۔ یہ ایسا اس لئے کہ عدلیہ اور ان کے ججوں کا ڈر ختم ہو چکا ہے ۔ اب ہرکوئی ان کا مزاخ کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ ہم تو یہ کہئں گے جیسے فرشتے نے سانپوں کو کہا تھا کہ زہر تو نکال دیا گیا ہے لیکن شوں شاں تو اپنے اندر کا ختم نہ کرو ۔ لہذا کبھی کبھار ایکشن لے لیا کریں۔ کیا زمانہ تھا جب کیس کورٹ میں ہوتا تھا توکوئی بھی اپنی رائے اس کیس کے حوالے دینے سے ڈرتا تھا۔ کورٹ روم کی پہلی رو پر بیٹھنے والے کسی شخص کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے۔ جس شخص کے خلاف مقدمہ کی ایف آئی آر درج ہوتی وہ بغیر ضمانت کرائے کے کسی دوسرے کیس میںکورٹ میں بیٹھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب ہر وہ کام ہو رہا ہے جسے کرنا کبھی جرم سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب کسی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ عدالتیں سب کچھ دیکھتے ہوئے خاموش ر ہیں ۔ جو جج تھے انہوں نے بھی احتیاط نہیں بھرتی۔ اگر کوئی مجرموں کو سزا دینا پسند نہیں کرتا تھا تو کم از کم کبھی کبھی دبکے ہی مار دیتے تو آج صورتحال یہ نہ ہوتی جو ابھی ہے۔ ماضی میں جب عدلیہ کے ججوں پر انگلی اٹھائی جاتی رہی تو عدلیہ خاموش رہی۔ جس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ کیس عدالتوں میں ہیں۔ شام کو انہی کیسز پر میڈیا کے ٹاک شو میں بیٹھ کر تبصرے کئے جاتے ہیں ۔سپریم کورٹ میں پانامہ کیس پھر سے شروع ہے ۔ اچھا ہوا ہے پاناما لیکس کے کیس میں پہلے روز ہی عدالت نے تبصر ے کرنے سے منع کیا ہے ۔ ایک کیس آجکل اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خبروں کی زینت بنا ہوا ہے ۔ دس سالہ بچی پر زخم جج صاحب کی فیملی نے لگائے ہیں یا اسے خود لگے ہیں ۔ لیکن یہ ثابت ہو چکا ہے کہ دس بر س کی بچی جج صاحب نے گھریلو کام کے لئے رکھی ہوئی تھی ۔ ابھی راقم یہ کالم لکھ ہی رہا تھا کہ نجی چینل پر بریکنک نیوز دیکھنے کو ملی کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سو مو ٹو ایکشن اس کیس میں لے لیا ہے سب کو نئے چیف جسٹس ثاقب نثارکا یہ ایکشن اچھا لگا ۔ امید کی جا سکتی ہے اس کیس کے تمام پہلو ں پر نظر رکھتے ہوئے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا ۔ یہ نئے سال کا اور چیف جسٹس صاحب کا پہلا سو مو ٹو ایکشن ہے ۔ اب امید ہو چلی ہے کہ جو ڈیشری اپنا کھو یا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے گی۔ یہی وجہ ہے اب اس کیس کو میڈیا پر بریکنک نیوز کے نشر کیا جارہا ہے ۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ ایک ہی بچی تھی جو اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ کے کام کر رہی تھی یا اس جیسی درجنوں بچے اور بھی ہیں جو اس شہر میں اس بچی جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں ہر دس گھر میں ایک بچہ یا بچی گھریلو ملازمہ یا ملازم کے کام کررہے ہیں۔ امید ہے چیف صاحب فیصلہ کرتے وقت اس بچی جیسے دوسرے بچوں کا خیال بھی رکھیں گے ۔ ان کی حفاظت کےلئے بھی کوئی حکم صادر فرمائیں گے ۔ کچھ ہائی کورٹ کے ججز ایسے ہیں جن کے خلاف سپریم جو ڈیشئل کونسل میں اپیلیں پینڈنگ ہیں ۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ آپ نے پناماہ لیکس کے بنچ میں خود کو الگ کر کے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے ۔اسی طرح بچی کا سو موٹو کا فیصلہ بھی عوام کی امگوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ جسٹس ثاقب نثار صاحب سمجھدار ،دور اندیش ،دلیر اور تجربہ کار جج ہیں ۔ لہذامید کرتے ہیں کہ آپ عدلیہ پر ہر اٹھنے والی انگلی پر ایکشن لیتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن