اُستاد فتح علی خان سے میری سرسری شناسائی تھی۔ ان کی موت کی خبر سن کر لیکن میں اداس ہوگیا۔
یہ بات برحق کہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے کوئی نہیں آتا۔عمر کے آخری حصے میں ویسے بھی طبیعی طورپر موت کا شکار بن جانا ایک فطری بات سمجھی جاتی ہے۔ اُستاد فتح علی خان کی موت مگر ایک فرد نہیں فنِ موسیقی کے ایک بہت بڑے سکول ،جسے ہم گھرانہ کہتے ہیں،کی موت ہے۔ہماری ثقافتی تاریخ کا ایک خوب صورت حوالہ ختم ہوا۔ انگریزی والا Chapter Closed۔
”شمشیروسناںاوّل“ والی سوچ کا اسیر بنے ذہن اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں رکھتے کہ برصغیر پاک وہند میں بسے انسانوں کے لئے ہندومذہب فطرتِ ثانیہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس مذہت کے کٹرپن نے ذات پات کی ظالمانہ تقسیم مسلط کی تھی۔ یہاں آئے صوفیائے کرام نے ”لنگر“ کی خوب صورت روایت کے ذریعے اس تقسیم کے پرخچے اُڑادئیے۔کھانے کے اوقات میں جو کچھ بھی فقیر کی کٹیامیں میسر ہوتا ایک سادہ دستر خوان پر چن دیا جاتا۔ چھوت چھات کی لعنت سے آزاد ہوکر تمام ذاتوں اور مذاہب کے افراد وہاں باہم ہوجاتے۔
عام انسانوں کی تواضع کے عادی صوفیاءکو اس بات کا بھی شدید احساس تھا کہ ہندو اپنے دیوی،دیوتاﺅں اور بھگوان کی موسیقی کے ذریعے پرستش کرتے ہیں۔سُر اور لے کے بغیر انہیں کوئی دینی یا روحانی پیغام دینا ممکن ہی نہیں۔امیر خسرو نے اس حقیقت کو دریافت کرنے کے بعد سازوآواز کی مدد سے لوگوں کے دلوں تک پہنچنے کے راستے بنائے۔ ہماری کلاسیکی موسیقی سے وابستہ گھرانوں نے اسی روایت کو کئی سوبرس تک زندہ رکھا۔ اُستاد فتح علی خان کا پٹیالہ گھرانہ اس ضمن میں برصغیر کے شمالی خطوں میں بہت نمایاں رہا ہے۔
ہندوگائیکی”دھرپد“پر انحصار کرتی ہے۔دن کے مختلف اوقات سے جڑے راگ جو ریاضی کے اصولوں کی طرح انتہائی کڑے قواعد کے پابند ہیں۔ ان کا ”شدھ“ رہنا انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ایسے راگوںمیں عام انسانوں کا دل بہلانے اور اس کے جذبات کی ترجمانی کی گنجائش بہت محدود تھی۔
امیر خسرو کی بدولت مسلمان موسیقاروں نے بتدریج ”خیال“گائیکی کو متعارف کروایا۔برصغیر میں مروج موسیقی کے ریاضی ایسے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے بھی انہوں نے راگوں کو بالآخر دیوی دیوتاﺅں کی پرستش کی بجائے انسانی دلوں کوبہلانے اورر جھانے کا ذریعہ بنادیا۔خیال گائیکی کو عام انسانوں تک پہنچانے کے لئے پٹیالہ گھرانے نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس گھرانے کے بزرگ تان اور لے پر مکمل کنٹرول رکھنے کی وجہ سے ”کرنیل“ اور ”جرنیل“ کہلاتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ یہ بزرگ ریاض کے اوقات میں اپنے دروازوں اور کھڑکیوں کے سوراخ تک بند کردیتے تاکہ کسی اور کو ان کے ہنر کی باریکیاں اور انہیں حاصل کرنے کی مہارت نصیب نہ ہوپائے۔
امانت علی خان اور فتح علی خان مگر خوش نصیب تھے کہ ان کے بزرگ اُستاد عاشق علی خان تھے۔ انہیں سمجھ آچکی تھی کہ گرامو فون ایجاد ہوگیا ہے۔ریڈیو بھی متعارف ہوچکا تھا اور پھر ہمارے ہاں فلموں میں بھی گانوں کا استعمال شروع ہوگیا۔ عاشق علی خان کے دور رس ذہن نے دریافت کرلیا تھا کہ بندھے ٹکے قواعد جسے آپ گرائمر بھی کہہ سکتے ہیں کی غلام موسیقی اب زندہ نہ رہ پائے گی۔ اسے عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے جدت ضروری ہوچکی ہے۔
ان کی متعارف کردہ جدتوں نے ”شدھ“ موسیقی کے اصولوں کو ہرگز فراموش نہیں کیا۔غالب،اقبال اور فیض نے شاعرانہ قواعد کی مکمل اتباع کرتے ہوئے بھی نئے دور کے خیالات وانسانی جذبات کا مکمل اور بھرپور اظہار کیا تھا۔ عاشق علی خان کا رویہ موسیقی کے ضمن میں کچھ ایسا ہی ”انقلابی“ تھا۔ یہ اندازاختیار نہ کیا جاتاتو شاید ہماری موسیقی گراموفون کی ایجاد کے بعد اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتی۔ ہمارے کان اب تک مغربی دھنوں کے عادی بن چکے ہوتے۔
اُستاد عاشق علی خان کی تقلید میں امانت علی خان اور فتح علی خان نے بھی باہم مل کر یہ دریافت کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی کہ گرامو فون کی جگہ اب ٹیلی وژن لے رہا ہے۔ کیمرہ خوب صورت Displayکا تقاضہ کرتا ہے۔ امانت علی خان مرحوم خود بھی ایک وجیہہ اور خوش لباس انسان تھے۔ قدرت نے انتہائی خوب صورت آواز سے نواز رکھا تھا۔ مشکل سے مشکل سُرکو ادا کرتے ہوئے بھی ان کے چہرے پر اذیت کے آثار نمایاں نہ ہوتے۔ بہت سہولت اور وقار کے ساتھ ہر طرح کا سُرلگالیتے ۔وہ خاکہ جو وہ اپنی خوبصورت آواز اور کرشماتی شخصیت کے ذریعے متعارف کرواتے،اس میں تان پلٹوں وغیرہ کے رنگ فتح علی خان پھردیتے۔ٹی وی سکرین پر مختلف راگوں میں گائی ٹھمریاں پُرشکوہ تخلیق کی صورت نظر آنا شروع ہو جاتیں۔
1970ءکی دہائی میں جب ٹی وی رنگین نہیں ہوا تھا تو ان دونوں بھائیوں نے اشفاق احمد کی میزبانی کی بدولت اپنے فن کو ٹی وی کے ذریعے عام انسانوں تک پہنچانے کے حیران کن راستے ڈھونڈ لئے۔اُستاد فتح علی خان کی موت نے اس روایت کو ختم کردیا ہے جہاں فن کار کا بنیادی ہدف فوری مقبولیت اور بے تحاشہ پیسہ کمانا ہرگز نہیں ہوتا۔ اپنی آواز کو قدرت کا دیا فیض سمجھتے ہوئے انہوں نے اسے برسوں کی مسلسل ریاضت کے ذریعے عام انسانوں میں بانٹنے کے لئے تیار کیا تھا۔ اپنے فن کی تمام باریکیوں اور گہرائیوں کو دریافت کرنے کی لگن اُستاد فتح علی خان نے مرتے دم تک برقرار رکھی۔ ساتھ ہی ساتھ کسرِ نفسی اور عاجزی کی روایت بھی جو Celebrity ہوئے فن کاروں کو رعونت وغرور سے محفوظ رکھتی ہے۔ اپنے دل میں سوزوگداز کو برقرار کھتے ہوئے دوسروں کے دلوں میں موجود زخموں کے لئے مرہم کا کام کرتی ہے۔ آفتوں میں گھرے انسانوں کو دلاسہ دیتی ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭....٭....٭
پٹیالہ گھرانے کے ”جرنیل“ استاد فتح علی خاں
Jan 06, 2017