مذہبی جماعتوں کی ذیلی جماعتیں اپنے بڑے درجے کے قائدین کی ناراضگی کے سبب اپنے لئے نئے راستے اختیار کر رہی ہیں ۔ دوسری جانب مذہب پرستوں کی نئی نسلیں علوم جدیدہ کی روشنی اور مغربیت کے ثقافتی انداز جدید سے اتنی شدید متاثر ہیں کہ وہ مشرقی روایات کو ترک کرنے میں ہی اپنی ترقی کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ایک پرانا مگر تازہ خیال یہ ہے کہ قدیم دینی مدارس کے طلبہ اپنی طے شدہ قدیم فکری اور ثقافتی ڈگر پر پوری طرح سے جمے رہتے ہیں لیکن دل تیرا مسلم نہ کافر کے مصداق بے یقینی کی باطنی کیفیات سے دو چار وہ بھی مذہب کے آفاقی اور مابعد الطبیعاتی اثرات کے کامل طور پر قائل نظر نہیں آتے ۔ یہ حقیقت اگرچہ تلخ بلکہ نہایت تلخ ہے کہ مذہب پرستوں میں وہ گروہ جو دین اور علوم دینیہ کو اپنی دنیا اور راحت دنیاوی کیلئے ڈھال بناتا ہے وہ کچھ ایسے آسان اور خاموش راستے بھی تلاش کرتا ہے جہاں سے دین و یقین کی بربادی کی منزلیں دریافت ہوتی ہیں۔ ملوکیت ، شہنشاہیت اور جبری اقتدار کی جملہ شکلیں یا تو مذہب کی مکمل تردید کرتی ہیں یا پھر عارضی وقت گزاری کیلئے مدعیان مذہب سے قبائے تقویٰ مستعار لیتی ہیں ۔ ہر رنگ جدید کو رنگ قدیم میں چھپانے کی مہارت شیخ منبر کے ہاتھ میں موجود رہتی ہے ۔ ایک دفعہ ایوبی آمریت میں آمریت کو پاکیزہ لباس کا تقاضہ لاحق ہوا تو پریشانی نے حل تلاش کرنے میں ناکامی کا اعتراف کر لیا ۔ کسی نادان نے مبنی بردانائی مشورہ دیا کہ آج کل ایک شیخ عجم، دائرہ حرم میں اپنے معیار تقویٰ کو بلند کر رہے ہیں ، اب انکے وجود میں تقویٰ کی بہت زیادتی ہے ۔ اگر ازرہ کرم وہ آمر حکمران کو وہ فاضل تقویٰ دان کر دیں تو ان کی پارسائی ہرگز بیمار نہ ہو گی ۔ پہلے کی طرف توانا رہے گی اور اس پارسائی کے اثرات ان کی اولاد میں اگلی صدی تک موجود رہیں گے۔ اسمبلی میں حمایت کا ووٹ درکار ہے ۔ اس دور کے لحاظ سے یہ کام بہت اہم تھا ۔ ایک ووٹ کی ضرورت تھی ۔ ووٹ بھی خیر سے اب پاکیزہ اور محترم تھا ۔ بقول شورش کاشمیری کہ یہ ووٹ شیخ عجم نے حرم سے تازہ تازہ مراجعت کے بعد 35 ہزار میں فروخت کر دیا تھا ۔ع
رند کے رند رہے ، ہاتھ سے جنت نہ گئی
شیخ عجم کے اندرونی حلقے کے دوست بہت برہم ہوئے ۔ لیکن ایک دن ایسا آیا کہ بھٹو آمریت میں بوذریت کے مدعی شیخ غریب نے اپنے ایک عزیز کو پولیس آفیسر نے بھی اپنی ردائے وفا آمر کے قدموں پر نچھاور کر دی۔عجب صورت بدلی کہ اب دین اور دین پروری کے نام پر تجارت وفا کا ایک سلسلہ ہے لیکن بدلتی ہوئی جدید دنیا میں بھی رنگ آمریت سولہ سنگھاروں سے آراستہ ہے اور وفائے دین و ایمان کے زیور سے لدے ہوئے مشتاق بھی بارہ مصالحوں کی چاٹ کے رسیا اور شوقین ہیں ۔ عوام بالکل سادہ ہیں ، ایسے سادہ کہ شب و روز مقتل میں کھڑے منتظر رہتے ہیں ۔ بالکل امیر خسرو کے اس مصرعہ شوق کی تصویر بنے…ع
ہمہ آھوانِ صحرا سرِ خود نہادہ برکف
صحرا کے تمام ھرن اپنے سر ہتھیلی پر سجاتے کہ محبوب آ کر ہمیں شکار کر لے بلکہ اب مکاتب فکر ہیں ایک ہی اشتراک ہے کہ عوام کو بالکل ہی عام بلکہ آم سمجھا جائے اور ان کو اتنا نچوڑو کہ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام بھی وصول ہوں ۔ بات مسلک سے شروع ہو کر دین تک سفر کرتی ہے ۔ فکر و عمل کے اس ارتقاء میں مقامی ملوکیت اور بین الاقوامی شہنشاہیت اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں بہت سے صالح لباس دانشوروں کا سہارا یہی ہے ۔ یہ دانشور سازش کے دانوں کو الفاظ و جذبات کے ایسے خوبصورت رنگ دیتے ہیں کہ ہر دانہ رزق مقسوم سمجھ کر صاحبان دستار بھوکے کبوتر کی طرح اچکتے ہیں ۔ کچھ کھاتے ہیں اور کچھ اپنی اولاد کیلئے بچاتے ہیں ۔ اچھی سواری ، اچھے کپڑے ، اچھے کھانے اور پر آسائش رہائش ان کا مقدر اور ان کی اولاد کا ترکہ قرار پاتا ہے ۔شیخ غریب اور شیخ سادہ پھر شیخ فکر اور پھر شیخ امارت اپنی اپنی استعداد کے مطابق رونق ہنگامہ کیلئے اپنی جماعتیں ترتیب دیتے ہیں ۔ نوجوانوں کے جذبات میں مسائل حاضرہ کے حوالے کی چنگاری اس طرح سے پھینکتے ہیں کہ وہ بھُس میں چنگاری ثابت ہو جائے ۔ کہیں دفاعِ دین کا غلغلہ ہے اور کہیں وفائے وطن کی صدا ہے ۔ لیکن ایک حقیقت ہے کہ مدعیان مذہب ہر اقلیت کو خاموش مجرمانہ حمایت فراہم کرتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ …؎
سلسلہ ہے چوروں کا اور نجانے کب سے ہے
شکم پروری منزل اور نجانے کب سے ہے
صاحبو ! شکم پروری کے انداز نرالے ہیں اور ترقی کے نام پر منصوبہ جات کی بھرمار اور پھر لوگوں کے سکون کا غارت ہونا یہ ملوکیت کی کرامت ہے ۔ اور ان کے تشنہ لب مذہب کے دعویدار قائدین کی دوستی ، ہم آہنگی مفاد طلبی اور نفس کی آسودگی کے تقاضوں کے تحت ہے ۔
بین الاقوامی شہنشاہیت خوش ہے کہ وہ اپنے طے شدہ ڈرامے کے ہر سین کو کامیاب ہوتا دیکھ رہی ہے ۔ اب اقتدار کی آمریت اور مذہب کی قیادت میں بہت زیادہ ہم آہنگی ہے ۔ افراد کیلئے پر کشش مراعات نے پورے طبقے کی حس امانت پر سوال اٹھایا ہے ۔ دل کی دنیا کے باسی اور شکم کی کائنات کے متلاشی اب پریشان ہیں کہ دل کی بستیوں کو محبت کے قافلوں سے وابستہ رکھنے والے اپنے رہنمائوں سے محروم ہو گئے ہیں ۔ انکے راہنما ایک چھوٹی سی وزارت پر آدھے قد سے بیٹھ کر اپنی عقیدت کی متاع جمہوری آمر کی چوکھٹ پر لٹاتے ہیں اور شکم کی کائنات کے متلاشی ہر دور میں اندھیرے اجالے سے واقف مفکر دوراں شیخ سیاست کی اتباع میں ہر عہد میں وزارتوں کے جھولے پر اپنے خواص حلقہ کو جھلاتے ہیں ۔ جھولے پر بٹھانے سے پہلے بھی نہال ہوتے ہیں اور جھولے سے اتارتے ہوئے بھی خوشحال ہوتے ہیں ۔ ایک تیسری قسم اصلاح احوال کے مدعیان کی ہے ۔ وہ کرپٹ نظام کو للکارتے ہیں لیکن زمین خیال اور ارد گرد کا حال کسی طرح بھی کرپشن کی مسموم آندھیوں سے محفوظ نہیں ہوتا ۔
شکم پروری منزل اور نجانے کب سے ہے
Jan 06, 2017