کہا جاتا ہے دنیا میں اب تک جمہوریت ہی بہترین طرز حکومت پایا گیا ہے۔ کتابوں میں ہم نے پڑھا ہے کہ جمہوریت کو انگریزی میں democracy کہتے ہیں اور democracy is a government, by the people, of the people and for the people یعنی لوگوں کی اپنی حکومت ان کے ذریعے اور ان کے لیے۔ لیکن ایک عام پاکستانی کے لیے سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کے سامنے واقع بہترین چائے کے لیے مشہور ایک چھوٹی سی کنٹین میں بیٹھے ہفتہ اور اتوار کو اکثر بحث میں یہ بات آتی کہ سڑک پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا جائے کہ جناب اردو میں لفظ ’’جمہوریت‘‘ لکھ دیں۔ آپ دیکھیں کتنے لوگ یہ لفظ لکھ سکتے ہیں۔ اور کتنے لوگ اس کا مطلب سمجھتے ہیں۔ کثیر تعداد لکھ نہیں سکتی اور سمجھنے والے تو شاید خال خال ہوں۔اچھے بھلے پڑے لکھے لوگ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمائیں گے کہ الیکشن میں جو امیدوار زیادہ ووٹ لے جائے۔ چاہے جس طرح بھی لے سکے وہ ممبر صوبائی یا قومی اسمبلی منتخب ہو جائیگا۔ ان میں سے حکمران چن لئے جائیں۔ ووٹ کس طرح لئے جاتے ہیں۔ کہ جو امیدوار ووٹر کی زیادہ خدمت کریگا۔ دامے، درمے اور سخنے وہی ووٹ کا حقدار ٹھہرے گا۔اکثر ووٹر چند دن بریانی کھا کر اور سوڈا واٹر کی بوتل پی کر ہی ووٹ دے آتے ہیں۔ ان بے چاروں کو اپنے ووٹ کی قدر و قیمت کا ہی علم نہ ہے۔ اور جو الیکشن لڑنے کے ماہر ہیں وہ ہر جائز نا جائز حربہ استعمال کرکے ہر قیمت پر ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے ملازمت کے دوران دیکھا کہ جو امیدوار سب سے زیادہ ہیری پھیری کا ماہر ہو گا وہی جیتے گا۔ اور پھر سب سے بڑھ کر جس کو حکومت کی مدد حاصل ہو گی۔ وہ جیت کر رہے گا۔ الیکشن سامان کی ترتیب، تقسیم، اور عملہ کی تعیناتی جو کہ عام طور پر مقامی ہوتے ہیں۔ اور بہت چھوٹی سطح کے ملازم ہونے کی وجہ سے جلدی دب جاتے ہیں یا ان کی پہلے ہی کسی نہ کسی پارٹی سے وابستگی ہو تی ہے۔ کی بہت اہمیت ہے۔ تجربہ کار اور تربیت یافتہ کارکن جو لڑنا جھگڑنا بھی جانتے ہوں۔ الیکشن میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر ماشاء اللہ الیکشن کمیشن کا عملہ۔ وہ اگر تہیہ کر لے تو فیصلہ کن کردار اس کا ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میںووٹر کے فیصلہ کرنے کی بنیاد کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔ زیادہ تر لوگ ذاتی تعلق کی بنا پر ذات پات، برادری اور قبیلہ اور اس قسم کی ذاتی ترجیحات بشمول مسلک اور پیری فقیری وغیرہ کی بنیاد پر ووٹ دینے کا فیصلہ ہوتا ہے یقیناً بہت تھوڑے لوگ قومی مفاد کو اہمیت دیتے ہوں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کو اس کی سوجھ بوجھ ہی نہ ہے نہ کسی نے پارٹیوں کے منشور کا مطالعہ کیا ہوتا ہے۔ لوگوں کو منشور کے مطلب کا پتہ نہیں۔ ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جس میں آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو ہر دفعہ تقدیر بدلنے کے نعرے بیکار ہیں۔حرام ہے جو کسی ووٹر کو اس بات کا احساس ہو کہ ان ممبران کا کام قانون سازی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ بہت سارے ممبر حضرات کو legislator کے ہجے یا معنی نہیں آتے۔ قارئین کرام کو یاد ہو گا جب ممبر حضرات کے لیے بی۔اے کی ڈگری کی شرط لگ گئی تو بے شمار لوگوں نے جعلی ڈگریاں حاصل کر لیں اور ووٹروں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ جنوبی پنجاب میں ا یک ایم این اے کے خلاف جب یہ الزام ثابت ہونے کو تھا انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ دوبارہ الیکشن لڑا۔ پھر ممبر منتخب ہو گئے۔ میرے جیسے کسی شخص نے جب حیرت سے چند ووٹر حضرات سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ یہ بڑا چھا ممبر ہے۔ جب بھی ضرورت پڑے تھانہ تحصیل اور کچہری فوراً ساتھ جاتا ہے۔ یہ ہے جناب ہمارے ووٹر حضرات کا معیار۔ ایم پی اے۔ ایم این اے کی کارکردگی پرکھنے کے لیے نالیوں اور گلیوں کی تعمیر دیکھتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جب تک لوگ صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ نہیں ہو جاتے اور قومی مفاد میں اجتماعی سوچ کا شعور ان میںنہیں ابھرتا۔ اور الیکشن کے سارے کے سارے قوانین سرے سے تبدیل نہیں کیے جاتے اور حکومت وقت جو بھی موقعہ پر اقتدار میں ہو۔ وہ ایمانداری سے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کی ذمے داری پوری نہ کرے اور یہ عمل دو چار مرتبہ متواتر دہرایا نہ جائے یہ معاملات بہتری کی طرف رواںنہیں ہو سکتے۔اس وقت کی جمہوریت تو جمہوریت ہے ہی نہیں۔ یہ تو جمہوریت کے نام پر فراڈ ہے۔ اور دھوکہ دہی کی واردات ہے۔ اب یہ سلسلہ کاروبار کی حثییت اختیار کر گیا ہے کوئی شریف آدمی اپنی جائز آمدنی سے ایک کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا ۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ ہر جائز ناجائز ذریعہ سے بنایا ہوا مال لگا کر الیکشن لڑکے کامیاب ہو کر لمبی پیدا کی جائے۔ اکثر لوگ اپنے ممبر حضرات کا ذکر کرتے پائے جاتے ہیں کہ تھوڑے عرصے میں ہی ان کی حالت یکسر بدل گئی اور اب وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے پاکستان میں شروع شروع میں سیاست دان اپنی جائیداد بیچ کر الیکشن لڑتے تھے اور کرپشن بہت حد تک ناپید تھی مگر اب معاملہ اس کے الٹ ہو گیا ہے۔ حال ہی میں ان سب حضرات کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ اس کے مستحق ہرگز نہ ہیں۔ ذرا پوچھیں کہ یہ کرتے کیا ہیں ان کی کارکردگی ملاحظ ہو کہ بہت سارے پورے سیشن میں کبھی بولے ہی نہیں۔ پیچھلے دنوں 8 دن کے پنجاب اسمبلی کے سیشن میں 5 دن کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوتا رہا۔ اور غریب ووٹرز کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا اس کا مطلب ہوا کہ یہ قوم پر ناجائز بوجھ ہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ایک تھوڑی سی تعداد اپنے اوچھے ہتھکنڈوں اور ہیرا پھیری سے بہت بڑی تعداد کے وسائل پر قابض ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ جن بیچاروں کو اپنے حقوق کا علم ہی نہ ہے۔ اگر زیادہ تنگ آتے ہیں۔ تو اپنی قسمت کر کوستے ہوئے روتے پیٹتے زندگی کے دن پورے کرتے رہتے ہیں۔ 51 فیصد والے حکومت میں آ کر بقایا 49 فیصد کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں کیا اقتدار میں آنے والے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح مہذب ہیں ان میں تو اخلاق نام کی چیز ہی کوئی نہیں اور برداشت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالات سے ظاہر ہے کہ سوائے مہنگائی کرنے اور قرضے بڑھانے کے حکومت نے عام آدمی کی بھلائی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی ہے کہ جیسے لوگ ہونگے ویسے ہی ان کے حکمران آئیں گے۔ تو یہ سیدھی سی بات ہے۔ کہ ہم خود اس بات کے ذمے دار ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک لوگوں کی حالت نہیں بدلتا۔ جب تک وہ خود اسکو نہ بدلیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا