واشنگٹن ( صباح نیوز)انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ میانمار حکومت ریاست رخائن کے روہنگیا مسلم اکثریتی علاقے میں شہریوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی حکومت کی جانب سے تشکیل دیئے گئے کمشن نے اپنے نتائج جاری کیے جس میں دانستہ سیکیورٹی فورسز کا دفاع کرتے ہوئے شہریوں سے بدسلوکی کے تمام الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔ میانمار پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو مارنے پیٹنے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد انتظامیہ اب بھی تفتیش میں مصروف ہے۔شمالی رکھائن میں اہلکاروں کی تعیناتی اقلیتی روہنگیا افراد سے تعلق رکھنے والے باغیوں کی جانب سے 9 اکتوبر کو سرحد پر ہونے والے حملے اور 9 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد سامنے آئی تھی۔ اب تک اس ریاست میں 86 افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 34 ہزار کے قریب افراد سرحد پار کرکے میانمار سے بنگلا دیش جا چکے ہیں۔ نیویارک کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے نائب ڈائریکٹر فل رابرٹ سن نام نہاد کمشن کی رپورٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا پینل کی رپورٹ میانمار حکومت کے 'وائٹ واش میکانزم' کی مانند معلوم ہوتی ہے جس کا ہمیں خدشہ تھا اور اس کی اہم وجہ پینل کے نائب صدر ہیں جو کہ لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔ ای میل میں فل رابرٹ سن کا مزید کہنا تھا کہ 'حیران کن' بات ہے کہ علاقے میں مساجد کی موجودگی سے اس بات کا فیصلہ کرلیا گیا کہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم نہیں ہورہے۔مہماتی گروپ فورٹیفائی رائٹس کی بنیاد رکھنے والے میتھیو اسمتھ کہتے ہیں کہ کمشن کی رپورٹ اور تحقیق کرنے والوں کی جانب سے بنگلادیش فرار ہونے والے اور شمالی رخائن میں موجود لوگوں سے کیے گئے انٹرویو میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔میتھیو اسمتھ کا اپنی ای میل میں مزید کہنا تھا کہ فوج کی جانب سے ظالمانہ جرائم کیے جارہے ہیں جبکہ کمشن اس پر وائٹ واش کی کوشش کررہا ہے۔