خلیفہ ہارون الرشید کا دل رنج و غم سے اِس قدر متاثر ہوا کہ اُسے دن اور رات کو بھی چین نہ ملتا، عدم اطمینان اور بے سکونی بڑھتی گئی تو اُس نے اپنے ایک قریبی وزیر فضل بن ربیع سے مشورہ کیا کہ کسی روحانی عامل کو تلاش کیا جائے تاکہ اِس بے یقینی کی کیفیت سے نکلا جائے، کئی عاملوں کی طرف رجوع کیا گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی… آخر وزیر باتدبیر نے عرض کیا، ظل الٰہی! اب تو صرف ایک ہی ہستی باقی رہ گئی ہے، مجھے یقین کامل ہے کہ وہ اِس کیفیت سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوں گے، خلیفہ کے اصرار پر وزیر نے بتایا کہ وہ ایک صوفی بزرگ ہیں جو دنیا اور اُس کی ساری دلکشی سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور لوگوں کو اُن سے بڑا فیض پہنچ رہا ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے فوراً اُن کے پاس جانے کا فیصلہ کیا، رات کی تاریکی میں وزیر اور بادشاہ دونوں فضیل بن عیاض کے حجرے میں پہنچ گئے، وزیر نے دروزے پر دستک دی تو اندر سے آواز آئی کون؟ وزیر نے بتایا کہ وہ اور بادشاہ سلامت ہارون الرشید حاضر خدمت ہوئے ہیں، حضرت فضیل نے فوراً چراغ بجھا دیا اور دروازہ کھول کر خود حجرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے، حضرت فضیل کوئی دنیا دار تو تھے نہیں جو بادشاہ کا بڑا استقبال کرتے، نہ کوئی غرض نہ کوئی لالچ، اللہ والوں، درویش صفت انسانوںکا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے، وزیر اور بادشاہ دونوں ہی اندھیرے میں حجرے کے اندر کھڑے تھے، ہارون الرشید نے فضیل بن عیاض کو پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا، ہارون الرشید ٹٹولتے ہوئے آگے بڑھے تو دیوار کے ساتھ بیٹھے اُس درویشِ خدا سے ہاتھ ٹکرا گیا، فضیل بن عیاض نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر خلیفہ سے مصافحہ کیا تو خلیفہ بہت خوش ہوا، اُس کے تن بدن میں راحت کی ایک لہر دوڑ گئی، حضرت فضیل بادشاہ سے مخاطب ہوئے، اے ہارون الرشید! اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے کہ میری اُمت کے علماء ایک زمانے میں حکمرانوں کے محلات کے دروازوں پر جایا کریں گے اور بہترین حکمران وہ ہوں گے جو علماء کے ہاں حاضر ہوا کریں گے، ان الفاظ نے ہارون الرشید کے رگ و پے میں عجیب سی کیفیت پیدا کردی، پھر حضرت فضیل نے فرمایا ہارون رشید! تیرا ہاتھ کتنا نرم ونازک اور ملائم ہے، کاش یہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہ سکے، اِ ن کلمات سے یوں محسوس ہوا جیسے کہیں کوئی بہت مضبوط بند ٹوٹ گیا ہو، آنسوئوں کے ایک ریلے نے سیلاب کی شکل اختیار کر لی تھی، خلیفہ بہت دیر تک روتا رہا، پھر حضرت فضیل نے فرمایا، ہارون الرشید! اپنے پائوں کو ڈگمگانے سے بچا لے، اللہ تجھ پر اپنا فضل فرمائے گا، جب تیرا آخری وقت آ پہنچے گا تو کوئی مشیر وزیر تیرا ساتھ نہ دے گا، اگر تیرے کام کوئی آئے گا تو تیرے اعمال ہوں گے۔ ہارون الرشید پر اُس وقت رقت طاری تھی، وزیر بہت پریشان ساکت کھڑا تھا، اُس نے کانپتے ہوئے فضیل بن عیاض سے درخواست کی کہ وہ ہارون الرشید پر مہربانی فرمائیں۔ درویش نے جواب میں کہا تم اور تمہارے ساتھی خلیفہ کے دربار میں ایسے حالات بناتے ہو کہ یہ گناہ پر گناہ کرتا جائے، مجھے بتائو تو سہی کبھی تم میں سے کسی نے اِسے غیر شرعی کام کرنے سے ٹوکا ہے، تم ایسا اِس لیے نہیں کرتے کہ تمہیں اپنی وزارتِ اور جاہ وحشمت بہت پیارا ہے، تمہیں خوشامد کے سوا کچھ نہیں آتا۔ حضرت فضیل ایک بار پھر خلیفہ سے مخاطب ہوئے، اے خوبصورت چہرے والے ہارون الرشید! قیامت کے روز اللہ تجھ سے تیری رعایا کے بارے میں پوچھے گا، اگر تونے اپنے اِس چہرے کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے تو اِس میں مزید دیر نہ کر کل کا کیا بھروسہ تیرے دل میں اپنی رعایا میں سے کسی ایک فرد سے بے انصافی، تیری کدورت اور بغض پر تجھ کو پکڑ لیا جائے گا، اس لیے تیرے حق میں بہتر ہے کہ فوراً اپنی اصلاح کر لے۔آج ہمارے حکمران، ہمارا معاشرہ کدھر جا رہا ہے، اقتدار کی خاطر موروثیت کو زندہ رکھنے اور اپنے خزانوں کو بچانے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیل رہے ہیں، اپنے اندر کی اصلاح کرنے کی بجائے جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار کا حصول ہمارا مطمع نظر رہ گیا ہے، قوم اور ملک کی حالت اس حد تک ہوچکی ہے کہ مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ بن چکا ہے، اپنے آپ کو ہر دنیاوی قانون سے مبرّا سمجھنے والے، اپنے بچائو کیلئے سب کچھ دائو پر لگانے کو تیار بیٹھے ہیں مگر اپنے دکھوں کے مداوے اوردل و دماغ کی بے چینی ختم کرنے کیلئے اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ ہمارے حج اور عمرے بھی دکھاوے بن چکے ہیں، ہم ہاتھی کے دانت ہیں، دکھانے کیلئے اور کھانے کیلئے اور استعمال کرتے ہیں، ہم اندھے، بہرے اور گونگے ہو چکے ہیں، آج ہم ٹک ٹک دیدم دم ناں کشیدم کی عملی تصویر بن چکے ہیں۔ہمارے ازلی اور اَبدی دشمن انڈیا کا دنیا بھر میں ہمارے خلاف زہر افشانی اور سازشوں کا جال بننا بے شک اُس کا حق تھامگر سوچنے کی بات ہے کہ آج اتنے برس بعد ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی بدترین کارکردگی ہمارے سامنے آرہی ہے، جس امریکہ کیلئے گذشتہ کئی دہائیوں سے ہم استعمال ہو رہے ہیں وہ بھی نہ صرف ہمارے سامنے کھڑا ہے بلکہ آج سب سے زیادہ ڈر اور خوف ہمیں اُسی سے ہے، آج اُس نے ہمارا نہ صرف معاشی استحصال کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ صبح و شام ہمیں اُس سے حملے کا خطرہ موجود ہے، جتنا شاید انڈیا سے بھی نہ ہو۔ آج ہماری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا دیا ہے حکمرانوں نے ہمیں، دوستیاں، دشمنی میں بدل گئی ہیں، ہمارے خطے میں سعودی عرب ، انڈیا اور امریکہ کا بہت بڑا رول ہے، تینوں کے ساتھ محبت کی پینگوں کے بھی دعویدار ہے۔خدارا ملک کو دائو پر نہ لگائیں بلکہ ملک کیلئے خود کو دائو پر لگانا پڑتا ہے آگے بڑھ کر کردار ادا کیجئے اور اپنی بے چینی، بے قراری اور پریشانیوں سے نجات کیلئے اللہ سے گڑگڑا کر، معاف مانگ کر اِس قوم کی آئندہ نسل پر رحم کھائیں، تمام رنجشیں، کدورتیں بھلا کر اِس ملک کی مضبوطی کیلئے کردار ادا کیجئے اور اس ملک و قوم کو نشانِ عبرت ہونے سے بچائیے، یہی قرض ہے آپ پر اِس قوم کا!