جہاں دوستی ہو وہاں نفع نقصان نہیں دیکھا جاتا کیونکہ جہاں غرض و غایت آجائے وہاں سے دوستی کا جذبہ رخصت ہو جاتا ہے۔ امریکہ تو شروع دن سے ہی جس کے ساتھ بھی دوستی کرتا ہے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کرتا ہے۔ اُسے دوسرے کسی کے سودو زیاں سے کوئی سروکار نہیں۔ ضیاء الحق کے دور میں امریکہ نے پاکستان کو روس کے خلاف استعمال کیا۔ خود طالبان جیسی جماعت تیار کروائی جسے روس کو شکست سے دوچار کرنے کی غرض سے استعمال کیا۔ بعد میں جب روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تو وہی مجاہدین دہشت گرد طالبان بنا دیئے گئے اور انہیں امریکہ کا دشمن قرار دیا گیا۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے فوجی اڈے اور اپنے شہری امریکہ کے ہاتھوں فروخت کیئے اور اربوں ڈالر اس کے عوض حاصل کئے۔ امریکہ نے پاکستانی سرزمین سے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور پورے افغانستان کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا۔ پاکستان کے ہاتھ کیا آیا؟ کچھ نہیں۔ بلکہ الٹا سینکڑوں پاکستانی فوجی اس اندھی جنگ میں شہید ہوئے اور پاکستان نے امریکہ ایسے بے وفا اور بے حیا دوست کے لیئے اپنا ناقابلِ تلافی جانی و مالی نقصان کیا۔ اب ٹرمپ پاکستان کو دھمکیاں ہی نہیں دے رہا بلکہ پاکستان کی امداد بھی بند کر دی گئی ہے اور پاکستان کو دہشت گرد ملکوں کی واچ لسٹ میں بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ وزیرخارجہ نے درست ہی کہا ہے کہ ’’ امریکہ یار نہیں یار مار ہے‘‘۔ اس کے ساتھ اب ’’نیمے دروں نیمے بروں‘‘ والی پالیسی چھوڑ کر سیدھے سبھائو دشمنوں والی پالیسی اپنانا ہوگی۔ جو ملک کو آپ پے درپے نقصان پہنچائے جا رہا ہے اس کے ساتھ دوستی کا کیا مطلب ہے یا اسے دشمن کہنے میں کیا عار ہے؟ وہ پاکستان سے اس لئے بھی ناخوش ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کی تھی۔ گویا اب پاکستانی پارلیمنٹ کو بھی امریکہ اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے۔ امریکہ کو دو ٹوک الفاظ میں حکومت اور عسکری قیادت کی طرف سے یہ پیغام جانا چاہیے کہ پاکستان ایک آزاد، خود مختار اور غیرت مند ملک ہے جو امریکہ یا کسی اور کے ٹکڑوں پر پلنے والے بے غیرت نہیں۔ اور نہ کسی کے سامنے جھکنے والا نہیں ہے، اب پاکستان ہر پالیسی اپنے مفادات کے مطابق بنائے گا اور اس کے لئے اگر امریکہ کی قربانی بھی دینا پڑی تو ہم گریز نہیں کریں گے۔ تمام سیاسی قیادت کا موقف بھی اس سلسلے میں وہی ہونا چاہئے جو حکومت اور عسکری حکام کا ہو۔ اس مرحلے پر ہمیں ذاتی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنا چاہئے۔ اور یک زبان ہو کر پاکستان کے تحفظ آزادی اور خودداری کے لئے متحد ہو جانا چاہیئے۔ کیونکہ قومی اتحاد وہ قوت ہے جو ایٹمی قوت سے بھی بڑھ کر ہے۔ اگر آپس میں پھوٹ پڑی ہو اور سیاست دان اور دیگر ادارے آپس میں باہم دست و گریبان ہوں تو دشمن کی دخل اندازی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ایسی صورتحال میں ایٹمی قوت بھی کسی کام نہیں آتی۔میاں نوازشریف اور شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران دو یا تین چینل ایسے تھے جو مسلسل یہ خبریں دے رہے تھے کے شریف برادران سے کرپشن کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور سعودی حکام ان سے تفتیش کر رہے ہیں۔ اس ڈس انفارمیشن پر میاں شہباز شریف نے دونوں چینل کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی بندش کی درخواست دینے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ میڈیا اگر پارٹی بن جائے تو اس پر کون یقین کرے گا۔ میڈیا چاہے الیکڑونک ہو یا پرنٹ ہو، ان کو معتدل (نیوٹرل) ہونا چاہئے۔ کسی پارٹی، ادارے یا شخصیت کی حمایت اور مخالفت کرنے کا مطلب ہے کہ چینل کسی خاص آدمی یا ادارے کے پیسوں سے چل رہا ہے اور جو چینل کا مالک ہے وہ عوام کو دکھایا، سنایا اور پڑھایا جارہا ہے۔ یہ بہت خطرناک اور افسوسناک روش ہے۔ میڈیا عوام کی زبان ہوتا ہے۔ عوامی مسائل کو بغیر کسی ردوبدل کے پیش کرنا اورسیاسی خبریں بغیر ذاتی تعلقات اور وابستگی کے رپورٹ کرنا ہی میڈیا کا منصب ہے۔ اس میں حکومت کو کم از کم ایک ضابطہ اخلاق وضع کر دینا چاہئے اور تمام پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کو اس کا پابند کر دینا چاہئے۔ جس میں یہ ہدایت واضح طور پر شامل ہے کہ کوئی اخبار یا چینل کسی پارٹی، ادارے یا شخص کی نمائندگی نہیں کرے گا اور سچ پر مبنی رپورٹیں پیش کرے گا جو مصدقہ ہوں گی۔ بصورت دیگر ایسے اخبار اور چینل کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا جو اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرے گا۔