چہرہ شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔اہل نظر خط کا مضمون لفافہ کو بھانپ کر سمجھ جاتے ہیں۔ ولیم شکسپیئر کہتا ہے ۔ ’’چہرہ شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے‘‘۔ انسان کی’’بدن بولی‘‘اس کے اندر کی زبان ہوتی ہے ۔فلسفی کی گفتگو باربط و بادلیل اور دیوانہ کی بے ربط و بے دلیل ہوتی ہے۔ علم نفسیات میں قیافہ شناسی خاص موضوع ہے۔ دست شناسی جسے پامسٹری کہا جاتا ہے باقاعدہ ایک علم ہے۔ ہر کس و ناکس دست شناس نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں سورۂ محمدؐ کی آیت نمبر 30 میں قیافہ شناسی اور لہجہ شناسی کا مذکور ہے۔ الفاظ یوں ہیں۔’’اور اگر ہم چاہیں تو آپ کو بلاشبہ وہ (منافق) لوگ دکھا دیں کہ آپ انہیں ان کے چہروں کی علامت سے ہی پہچان لیں اور یقیناً آپ ان کے اندر کلام سے بھی انہیں پہچان لیں گے۔‘‘ اللہ کی وحدانیت اور خلاقیت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ اس احسن الخالقین نے جتنی بھی مخلوق پیدا کی ان کی صفات اور وجود الگ الگ ہیں۔انسان کو ہی لے لیجئے۔ہر شخص کے چہرے کی شباہت جداگانہ ہے۔کوئی شخص دوسرے کی صورت پر پیدا نہیں کیا گیا۔حتیٰ کہ ہر شخص کے انگوٹھے پر لکیریں دنیا بھر کے انسانوں کے انگوٹھوں سے مختلف ہیں۔ہر شخص کا لب و لہجہ دوسرے انسان سے مختلف ہے۔درختوں کی ساخت و پرداخت میں بھی امتیاز و تفریق ہے۔ہر پتے کی ساخت مختلف اور رنگ مختلف ہے۔برگ سبز میں کئی سبزرنگ ہیں۔ہر سبز رنگ سے دوسرا سبز رنگ مختلف ہے۔یہ قدرت کا ملہ اور فطرت عاجلہ کے کارنامے ہیں جو خالق کے وجود کی دلیل صامت ہیں۔کژت میں وحدت ہے اور وحدت ہی توحید ہے اور توحید وحدت انسانیت کا درس عظیم ہے۔پختہ شخصیت کا چہرہ باوقار اور مظہر شعور و شعار ہوتا ہے۔گنوار کی شکل اور باتیں باعث آزار اور موت بے وقار ہوتی ہیں۔نورانی چہرہ عطیہ پروردگار ہوتا ہے،قرآن مجید میں ظالموں او رگناہ گاروں کو بروز قیامت سیاہ فام چہروں سے اٹھایا جائے گا ان کے گناہوں کی سیاہی ان کے چہروں سے ہویدا ہوگی۔ ہٹلر، مسولینی صدام حسین اور سٹالن کے چہروں سے کرختگی ٹپکتی تھی۔ آمر کی ذہنیت اس کی آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے۔بے رحم دل چہرے کو بے رونق کردیتا ہے۔ عصر حاضر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس کی مثال ہے اس کے چہرے سے کرختگی اور آنکھوں سے وحشت ٹپکتی ہے۔ باتوں سے منافقت اور مصنوعی تبسم سے شقاوت کی جھلکیاں ہویدا ہیں۔ بقول شاعر’’ایک چہرے پر کئی چہرے سجالتے ہیں لوگ‘‘ مومن کے چہرے پر نور اور منافق کے چہرے پر پھٹکار ہوتی ہے۔ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام پنڈتوں کا وظیفہ ہے۔ رتی شہر گوا میں برکس اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چینی صدر شی جن پنگ کو رجھانے اور لجھانے میں منافقت کی تمام حدیں عبور کردیں مگر ایک ’’مرد آہن‘‘ کی طرح چینی صدر دام ہمرنگ زمیں میں اسیرنہ کیے جاسکے۔ چین نے ’’گریڈ سیشن ‘‘میں انکار کرکے بھارتی سازش و منافقت کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا ہے۔ چینی صدر نے گویا بھارتی وزیراعظم کی شاطرانہ چالوں کو بھانپتے ہوئے حافظ شیرازی کی زبان میں اسے بتا دیا کہ ’’من خوب می شناسم پیران پارسا را‘‘۔ مخالف اور متحارب اقوام کی جنگ بلیوں کی جنگ نہیں ہوتی کہ غرائیں اور بھاگ جائیں۔یہ جنگ کتوں کی جنگ ہے جس میں دونوں فریق لہولہان ہو جاتے ہیں ۔’’جنگ کھیڈ نیں ہوندی زنانیاں دی‘‘ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اسے خبر ہونی چاہیئے کہ مسلمان جارح نہیں ہوتا مگر جارحیت کو برداشت نہیں کرتا۔ مجاہد شیر ہوتا ہے وہ بھیڑوں اور بھیڑیوں کو چبانا جانتا ہے۔آہنسا کے دعویدار و جارحیت اور بربریت سے باز آؤ۔کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑنا بند کرو۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرکے جنوبی ایشیاء کو ایٹمی جنگ سے بچاؤ وگرنہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ جارحیت کو چھوڑ کر امن و سلامتی کا دامن پکڑو۔ بصورت دیگر نریندر مودی یاد رکھیں کہ آج جو وہ بڑھکیں مار رہے ہیں ہم سے چھیڑ چھاڑ کے بعد وہ نواب نقوی کا شعر گنگنایا کریں گے …؎
دل دھڑکتا تھا تو رونق سی لگی رہتی تھی
اب دھڑکتا ہے تو دھڑکا سا لگا رہتا ہے
تقسیم ہند کے وقت منظم منصوبہ بندی کے تحت انتہا پسند ہندو لیڈر سردار بلد یوسنگھ پٹیل اور سکھ رہنما ماسٹر تاراسنگھ نے نوجوانوں کو عسکری تربیت دی تاکہ وہ مسلمانوں کا قتل عام کریں۔ ماسٹر تارا سنگھ زندگی بھر کف افسوس ملتے رہے کہ انہوں نے گاندھی اور نہرو کی چالبازیوں میں آکر کیوں ہندوؤں کا ساتھ دیا۔اس وقت ہندو لیڈر شپ ایک چہرے پرکئی چہرے سجائے ہوئے سکھوں کو ہمنوا بنا رہی تھی۔ اندرا گاندھی نے گولڈن ٹمپل کو گورستان بنا دیا۔ سکھوں کا قتل عام کیا اور آخر اپنے سکھ محافظ کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچی۔ اسرائیل اور بھارت کی لیڈر شپ ماسک پہنے ہوئے ہے۔ اندر کچھ اور باہر کچھ۔ اسرائیل جمہوریت کے راگ الاپ کر مغربی جمہوری دنیا کو ہمنوا بنا رہا ہے اور مسلمانوں میں رائج ملوکیت، عسکریت اور آمریت کیش کر رہا ہے جبکہ اسرائیل ایک جارح ملک ہے جو فلسطینوں کے حقوق کا قاتل ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے منحرف اور اوسلو معاہدے سے انکاری ہے۔ اسی طرح بھارتی سیکولرازم، لبرل ازم اور جمہوریت کا نقارچی ہے۔ جبکہ بھارتی مسلمان، عیسائی، سکھ اور شودر و دلت نہ صرف کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ بھارتی برہمن ازم کا بری طرح شکار ہیں اور بلاجرم و خطا ان لوگوں کا قتل عام دراصل صدائے عام ہے۔بھارتی دانشور رومیلا تھا پڑا رقم طراز ہے۔’’بھارت میں اختلاف رائے کی اجازت نہیں۔ دلائل کا جواب گولی اور گالی سے دیا جاتا ہے‘‘۔ نریندر مودی کی حکومت ہندومت کو غیر ہندوؤں پر مسلط کرنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ بھارتی دعویٰ جمہوریت سراب اور سیکولر ازم کا نعرہ خانہ خراب ہے۔ بھارتی قومی سلامتی کا مشیرا جیت دوول انتہا پسند ہندو اور دہشت گرد ہے۔ امریکی جریدہ ڈیلی میل نے بھی لکھا ہے کہ متعدد ممالک سے نوجوان بھارتی کیمپوں میں تخریب کاری کی تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ دراصل یہی بھارتی مذہبی انتہا پسند نوجوان ہیں جو کشمیر اور بلوچستان میں تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ بھارت جتنے بھی پینترے بدلے اور منافقت کے نقاب اوڑھے اور ایک چہرے پر کئی چہرے سجالے کشمیریوں کا خون رنگ لائے گا اور کشمیری بھارت کے چنگل سے آزاد ہوں گے۔