کوئٹہ+اسلام آباد(ایجنسیاں+نوائے وقت رپورٹ) بلوچستان حکومت کی مشکلات بڑھ گئیں اور صوبہ میں سیاسی ہلچل مزید تیز ہوگئی۔ صوبائی کابینہ کے 2 وزراء اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 2 ارکان مستعفی ہوگئے اور اپنے استعفے گورنر بلوچستان کو بھجوا دیئے۔ صوبائی وزیر لیبر راحت جمالی اور مشیر وزیراعلیٰ عبدالماجد ابڑو عہدوں سے مستعفی ہوگئے اور دونوں مسلم لیگی ارکان نے باغی ارکان کے گروپ کی حمایت کردی۔ اب تک 3 وزراء اور دو مشیروں نے صوبائی کابینہ سے استعفے دئیے ہیں۔ باغی ارکان نے اپوزیشن جماعتوں جمعیت علماء اسلام بلوچستان ‘نیشنل پارٹی ‘ بی این پی عوامی ‘ عوامی نیشنل پارٹی اور آزاد رکن سے رابطے شروع کر دیئے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے جہاں مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت کی حمایت کرنے والی دو قوم پرست جماعتوں کے رہنما کافی سرگرم عمل ہیں، وہاں اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے مسلم لیگ (ن) کے باغی ارکان اسمبلی، ق لیگ اور حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان بھی کافی فعال ہیں۔ ق لیگ کے رہنما اور بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے مزید ارکان ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں اور عدم اعتماد کی تحریک کو اب 40ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ناراض ارکان اسمبلی سے رابطے جاری ہیں جن کے مثبت نتائج جلد نکلیں گے۔ادھر ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا غفور حیدری نے کہا ہے کہ بطور آئینی ادارے کے ذمہ دار حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کا خواہاں ہوں لیکن جو فضا بنا دی گئی ہے اس میں اسمبلیوں کی مدت پوری ہوتے نہیں دیکھ رہا۔ بلوچستان میں تبدیلی آتی ہے تو مارچ میں سینٹ الیکشن ہوتے نظر آرہے جبکہ اگر یہ تبدیلی آئی تو اس کا رخ سندھ اور خیبر پی کے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ بلوچستان میں تبدیلی کے پیچھے نادیدہ قوتوں کا ہاتھ ہے یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جے یو آئی ف کا نادیدہ قوتوں سے کوئی رابطہ نہیں، عمران خان ، آصف علی زرداری اور طاہرالقادری کو جے یو آئی ف ٹرائیکا حکومت کو مارچ سے پہلے گرانا چاہتی ہے۔ جے یو آئی (ف) بلوچستان میں اپوزیشن جماعت ہے اور حزب اختلاف کا کام ہے حکومت کو ٹف ٹائم دینا اور گرانا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں تبدیلی ق لیگ اور مسلم لیگ (ن) کا ایک دھڑا مل کر لارہا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کو گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ فضل الرحمن نے وزیراعظم کو کہا اپنا گھر درست کریں پھر ہمارے پاس آئیں۔ جمعیت نے تحریک عدم اعتماد میں حتمی فیصلے کا اختیار صوبائی تنظیم کو دیدیا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے حامیوں کی تعداد 27ہوگئی ہے جس سے ثناء اللہ زہری کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے