اپنی کرنسی کو بے توقیر نہ کریں

گزشتہ چند دنوں سے پاکستانی کرنسی کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اس پرنہ ہی مرکزی بینک کوئی توجہ دے رہا ہے اور نہ ہی معاشی ارباب اختیار اس جانب سنجیدگی دکھا رہے ہیںیہی وجہ ہے کہ ڈالراچانک 106-107روپے سے بڑھ کر 112تک پہنچ رہا ہے۔ پاکستانی کرنسی کو بے توقیر کرنے کا اسی طرح کا ایک تماشہ اگست 2015میں بھی رچایا گیا تھا جس میں یکا یک ڈالرکو تین روپے مہنگا کرکے پاکستانی روپے کی قدر کوکم کردیا گیا تھا جس پر حسب معمول ارباب اختیار کو ہوش آیا اور نہ ہی مرکزی بینک کو کوئی جنبش ہوئی تھی مگراس کے بعد مرکزی بینک کے ایک ترجمان نے اس کی ذمہ داری دوسروں کے سر تھوپنے کی کوشش کی حالانکہ یہی حکومت تھی اور یہی سارے سقراط، بقراط اور افلاطون جیسے مشیر تھے کہ جب 2014میں ڈالر110روپے کی سطح کو چھوتے ہوئے واپس98روپے فی ڈالر کی سطح پر آگیا تھا اور جس میں مزید کمی کرنے کے دعوے کئے گئے تھے جس کا ذکر میں نے اپنے 7اپریل2014کے ایک کالم میں کیا تھا اور حکومت اور وزارت خزانہ کوان کی گرانقدر خدمات پر داد تحسین دی تھی مگر افسوس کی بات ہے کہ ناقص منصوبہ بندی اور پائیدار معاشی پالیسیوں کے فقدان کی وجہ سے وہ کمی مصنوعی ثابت ہوئی تھی۔ہم اس وقت ہی ترقی کرسکتے ہیں جب ہماری کرنسی مضبوط و مستحکم ہوگی کیونکہ معاشی ترقی اور مضبوط کرنسی ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ مگر ہمارے معاشی اداروں میں برسوں سے براجمان معاشی افلاطون و اقتصادی بقراط حضرات پاکستان کی معاشی ترقی وخوشحالی کی پالیسیوں پر چلنے کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس لئے ان کے ہوتے ہوئے کسی معاشی بہتری یا اقتصادی ترقی کی ذرا برابر بھی گنجائش نظر نہیں آتی 

اب ایک بار پھر پاکستانی معیشت کے ساتھ خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے اور روپے کی غیر اعلانیہ ڈی ویلیوایشن کا عملی مظاہرہ عالمی مالیاتی اداروں کی ایماء پر کیا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان نے پاکستانی کرنسی کو دس فیصد ڈی ویلیو کرنے کا مطالبہ کیا ہے/
جبکہ کچھ ذرائع کا یہ کہنا بھی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں نے حکومت پر روپے کی قدر 23فیصد کم کرنے کا دبائو ڈالا ہوا ہے ۔ حالانکہ میں بحیثیت خود ایک برآمد کنندہ کے چیلنج سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی کرنسی کی قیمت کم کرنے اور ڈالر کی قدر میں اضافے سے ہماری برآمدات پر مثبت اثرات نہیں پڑتے اور کوئی بھی معاشی افلاطون یااقتصادی بقراط مجھے ثابت کردے کہ جب کبھی روپے کی قدر کم ہوئی ہو اور ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہو تب پاکستان کی برآمدات بڑھ گئی ہوں کیونکہ اس قسم کے فائدے ان ممالک کی معیشتوں کو حاصل ہوسکتے ہیں جہاں ان کی برآمدات ان کی درآمدات سے زائد ہوں اوروہاں مصنوعات تیار کرنے کا سارا کام اور بنیادی ضرورتیں اسی ملک میں ہی حاصل ہوں جبکہ ہمارے ہاں برآمدات کا جو بنیادی شعبہ ٹیکسٹائل ہے اور اس کے بعد لیدر کی مصنوعات ہیں ان کی پروسیسنگ اور ان میں استعمال ہونے والے تمام کیمیکل ، کلرز،سافٹنرز، آلات ، سلائی مشینیںاور ان کے پرزہ جات درآمد کئے جاتے ہیں اس لئے ڈالر کی قدر بڑھنے سے تمام درآمدی اشیاء مہنگی ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ہماری برآمدی مصنوعات کی تیاری کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔
دوسری طرف ہمارے کسٹمرزہماری برآمدی اشیاء کی قیمتیں کم کردیتے ہیں کہ آپ کی کرنسی اتنے فیصد ڈی ویلیو ہوچکی ہے ۔ اس کے علاوہ ہماری درآمدات برآمدات سے تقریباً تین گنا زائد ہیں جس کی وجہ سے بغیر کسی قیمت میں اضافے کے درآمدی بل میں خود بخود اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس لئے پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی سے سراسر نقصان ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ اس وقت روپے کی قدر میں کمی کرنے اور ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے ہمارے اوپر غیر ملکی قرضوں میں بغیر کوئی مزید قرضہ لئے 400 ارب روپے سے زائدکا اضافہ ہوگیا ہے ۔اگر ہم اپنے قریبی ممالک کی کرنسی کی قدر کا ڈالر کی قدر سے موازنہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ 1971-72میں پاکستان میں ڈالر کی قیمت اوسطاً 8.69 روپے فی ڈالر، بھارت میں 9.5روپے فی ڈالراور بنگلہ دیش میں 8.9ٹکہ فی ڈالر تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تینوں پڑوسی ممالک میں ڈالر کی قیمت ملکی کرنسی کی مناسبت سے تقریباً برابر تھی مگراب بھارت میں ڈالر کی قیمت تقریباً 65روپے فی ڈالر، بنگلہ دیش میں تقریباً 84ٹکہ فی ڈالر جبکہ پاکستان میں 110روپے فی ڈالر سے ذائدکی سطح پر پہنچ چکی ہے ۔
اسی وجہ بھارت کی برآمدات 275.8ارب ڈالرز، بنگلہ دیش کی برآمدات 34.02ارب ڈالرز ہوچکی ہیں جبکہ ہماری برآمدات مالی سال 2013-14میں 25.11ارب ڈالرز کی بلند ترین سطح چھو کر20.4ارب ڈالرز ہوچکی ہیں اور اگرموجودہ ارباب اختیار کی یہی ناقص پالیسیاں جاری رہیں ،پاکستانی روپے کی قدر گرتی رہی اور عالمی اداروں کی من مانیوں پر عمل کیا جاتا رہا تو ناصرف پاکستانی برآمدات میں کمی آئے گی اور تجارتی خسارے میں اضافہ بڑھتا جائے گا ۔ میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ معیشت کی ترقی وبہتری کے لئے اپنے ملکی کرنسی کی قدر کم کرنے کی ناپائیدار اور غیر دانشمندانہ پالیسی سے اجتناب کریں ورنہ ہمارا تجارتی خسارہ ، کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور بیرونی قرضہ ناقابل بیان حد تک بڑھ جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن