اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کے حوالے سے نیب کی اپیل مسترد کرنے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 15دسمبر کو مختصر فیصلے میں نیب کی اپیل مسترد کی تھی۔ 36 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ نے ریفرنس درست طور پر مسترد کیا۔ معاملے کی دوبارہ تفتیش نہیں ہو سکتی۔ ہائیکورٹ کے ایک جج نے دوبارہ تفتیش کا جو فیصلہ دیا اسکی وجوہات نہیں بتائیں۔ نیب نے ملزموں کو احتساب عدالت میں پیش نہیں کیا۔ حدیبیہ ریفرنس ایک گمنام شکایت پر بنایا گیا۔ اٹک قلعہ میں لگائی گئی عدالت تک عوامی رسائی نہیں تھی۔ چیئرمین نیب کو اٹک قلعہ میں احتساب عدالت لگانے کا اختیار نہیں تھا۔ الزامات کی وضاحت کیلئے ملزموں کو نیب نے کبھی نہیں بلایا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 92-1991ء میں منی لانڈرنگ ہوئی۔ پاکستان میں 2007ء کے دوران منی لانڈرنگ کو جرم قرار دیا گیا۔ نیب نے ملزموں کے غیر ملکی اکاؤنٹ کی رقم پر غیر قانونی ہونے کا الزام نہیں لگایا۔ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا اقدام درست تھا۔ ریفرنس کا مقصد شریف خاندان کو دباؤ میں لانا تھا۔ انہیں قانونی حق سے محروم رکھا گیا۔ منی لانڈرنگ کا ٹرائل احتساب عدالت نہیں سیشن کورٹ میں ہوتا ہے۔ اسحاق ڈار کا بیان سیکشن 164 کے تحت ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ مجسٹریٹ اسحاق ڈار کا بیان ریکارڈ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اسحاق ڈار کا بیان چیئرمین نیب یا احتساب عدالت کے سامنے ریکارڈ ہو سکتا تھا۔ اسحاق ڈار کے بیان کو جواز بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ اسحاق ڈار کا بیان اپنی وضاحت سے متعلق ہے۔ 164 کا بیان ریکارڈ کرتے وقت ملزموں کی موجودگی ضروری ہے۔ 164 کے بیان میں ملزموں کو گواہ پر جرح کا حق ہوتا ہے۔ اسحاق ڈار کا بیان ملزموں کے سامنے ریکارڈ ہونا چاہیے تھا۔ ریاست کی تحویل میں موجود ملزمان کو جلا وطن کرنا جرم ہے۔ ریاستی تحویل میں موجود ملزمان کو جلا وطن کرنے کی سزا 10 سال قید تک ہے۔ نیب نے ملزموں کو جلا وطن کرنے والوں کی خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ریفرنس دائر کرتے وقت نیب پُرعزم نظر نہیں آیا۔ ملزموں پر چارج فریم کرنے کی بھی استدعا نہیں کی گئی۔ ثبوت بھی پیش نہیں کئے گئے۔ چیئرمین نیب نے ریفرنس کی بحالی کیلئے 4 سال تک درخواست دائر نہیں کی، ریفرنس قریب المرگ ہوچکا تھا۔ ریفرنس کو غیرمعینہ مدت تک زیر التوا رکھ کر قانونی عمل کی نفی کی گئی جبکہ ریفرنس کے وقت نیب پرعزم نظر نہیں آیا اور نیب نے ٹرائل کورٹ میں ملزماں کے خلاف ایک بھی گواہ یا ثبوت پیش نہیں کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کسی شخص پر الزام کا فیصلہ جلد از جلد ہونا چاہئے تاکہ قصور وار ملزم کو سزا اور بے قصور بری ہوسکے۔ غیرمعینہ مدت تک التوا میں رہنے والے مقدمات انصاف کو سچا ثابت کرتے ہیں چار سال تک چیئرمین نیب نے ریفرنس بحالی کیلئے کوئی درخواست نہیں دی پھر جب چیئرمین نیب نے بحالی کی درخواست دی تو کیس کی پیروی نہیں کی۔ حدیبیہ کیس کی اپیل نیب نے 1229 ایام کے بعد دائر کی اور دوران سماعت تاخیر سے درخواست دائر کرنے کی وجوات نیب بیان نہیں کر سکا نیب کی جانب سے نواز شریف، شہباز شریف کی خود ساختی جلاوطنی کا موقف اپنایا گیا جبکہ خود ساختہ جلاوطنی کا موقف حقائق کے برخلاف ہے ۔