2018ءکا” میٹر ریڈر“ اور”لوڈشیڈنگ فری پاکستان “

Jan 06, 2018

ارض پاکستان میں لفظ ”تبدیلی“ کافی معروف ہوچکاہے لیکن بدقسمتی سے یہ لفظ زیادہ تر صرف سیاسی نعروں میں ہی سننے میں آتاہے اس لفظ کا حقیقی استعمال کہیں دیکھنے میں نہیں آتالیکن آپ حیران ہوں گے کہ پاکستان کاایک ادارہ ایسا بھی ہے جس کے متعلق تمام قوم کی متفقہ سوچ تھی کہ اس ادارے کاعوام کے ساتھ لین دین اور رویہ کبھی تبدیل نہیں ہوسکتاکیونکہ کرپشن دھونس اور زبردستی اس ادارے کی جڑ وں میں بیٹھ چکی تھی اور اس ادارے کے لاکھوں ایمپلائز اور سینکڑوں آفیسرز (ماسوائے چند اچھے نیک نام اور ایماندار افسرو اہلکاروں کے )باقی تمام عوام سے درج بالا” برے سلوک“ کے عادی ہوچکے تھے اگر کہیں بلیک میلنگ کالفظ صادق آتا تھاتو اس ادارے کیلئے بجاتھا کیونکہ اس ادارے کی جانب سے صارفین کو فراہم کی جانے والی ”سہولت“ باآسانی اس ادارے کے علاوہ کہیں اور یعنی مارکیٹ میں تاحال دستیاب نہیں اور وہ ہے ”بجلی “ یہ سہولت دیگر اشیاءسے حاصل تو کی جاسکتی ہے لیکن وہ بہت مہنگی پڑتی ہے اور اس کی فراہمی بھی بلاتعطل نہیں ہوسکتی ۔ قیام پاکستان سے لیکر کچھ ماہ پہلے تک اس ادارے یعنی ”واپڈا“ کے میٹر ریڈر سے لیکر گھومنے والی کرسی پر بیٹھے آفیسر ز تک نے پاکستانی عوام کوبجلی کے میٹر اور اضافی بلوں کے گورکھ دھندوں میں الجھائے رکھا،،واپڈا کے سابقہ سسٹم میں سب سے طاقتور اکائی میٹر ریڈر تھا ایک میٹر ریڈر کو صارفین کے بجلی کے میٹروں کی ریڈنگ کیلئے جوعلاقہ دیاجاتاتھاوہ اس کا پولیس کے ایس ایچ او کی طرح تن تنہا مالک تھا متعدد میٹر ریڈروں کے پاس اپنی ذاتی کاریں زرعی رقبے اور پلاٹ ہیں ،میٹر ریڈر کی مرضی تھی جس کے میٹر کوٹھیک یاخراب دکھادے اگر کوئی میٹر ریڈر کی ”مٹھی “گرم کردیتاتو بل کم آتا اور اگر نہ کرتا تواس کی خیر نہیں علاوہ ازیں اگر آپ اس میٹر ریڈرکی ”مٹھی “ جلنے کی حد تک گرم کردیتے تو پھر آپ دس ایئرکنڈیشنڈ چلائیں بل آپ کی مرضی کے مطابق آتا اور اگر آپ نے میٹر ریڈر کی ”مٹھی “ پر غورہی نہ کیا توآپ چاہیں بجلی استعمال ہی نہ کریں بل آپ کامل چلانے جتنا ہی آنا تھااب آپ لاکھ دفتر کے چکرلگائیں آپ کابل ٹھیک ہوتے ہوتے یاتو آپ کاروزگار ختم ہوجاتایاپھر آپ تھک ہار کر بل بھرنے پر مجبور ہوجاتے دوسرے لفظوں میں آپ نے اگر میٹر ریڈر سے ٹکر لے لی تو پورے واپڈا سے ٹکر لے لی آپ چاہے عدالت جائیں ،قسمیں اٹھائیں آپ کی سننے والا کوئی نہیں تھا۔میٹر ریڈر کو مکمل طو رپر گھومنے والی کرسی پر بیٹھے ”بابوﺅں “کی آشیرواد حاصل تھی کوئی ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتاتھاایس ڈی اوز اور ان کے اوپر بیٹھے افسران کوتو صرف اپنے لاسز کا کھاتہ پوراکرناہوتاتھا تاکہ شوکاز کی صورت میں ان کے اوپر مصیبت نہ آئے یہ افسران لاسز کو اوقات میں رکھنے کیلئے میٹرریڈروں کو اشارہ کیا جاتا تھا چوری شدہ اتنے لاکھ یونٹ کو صارفین پر تقسیم کرناہے اور فلاں Batchپر صارفین کو اتنے یونٹ کاتڑکا لگاناہے میٹر ریڈر اور میٹر انسپکٹر ان کے ابرو کے ایک اشارے پر یہ کام بڑی تندہی اور دلچسپی سے کیاکرتے تھے انہیں یہ حساب لگاناہوتاتھاکہ گرڈ سٹیشن سے ہمارے پاس کتنی بجلی آئی ہے اور فروخت کتنی ہوئی ہے جویونٹ چوری ہوتے یاکروائے جاتے تھے وہ تمام کے تمام صارفین کے بلوں میںڈال دیے جاتے تھے اس طرح ہرصارف کو اگر 200یا300یونٹ اضافی ڈال بھی دیے جاتے توہزاروں صارفین پر لاکھوں یونٹ ڈالے جاسکتے تھے،صارف دفتر کے چکر لگانے کے خوف سے کوئی چوں چرا کئے بغیر بل بھرنے میں ہی عافیت سمجھتاتھااس طرح اگر چوری بڑھ جاتی اور عام صارفین کے بلوں کی حد سے بھی نکل جاتی تو بلدیاتی اداروں کے واٹرسپلائی سکیموں کے ٹیوب ویل اور ڈسپوزل سکیموں کی موٹریں بہترین سورس تھے وہ یونٹ ان پر ڈال دیے جاتے تھے اس طرح کے متعدد کیسز فہمید کیلئے اب بھی اداروں کے درمیان چل رہے ہیں ،میٹر ریڈ ر کی ماردھاڑ کے بعد اس ادارے کے دفتر بھی صارف کیلئے منہ کھولے رکھتے تھے ، دفترمیں زبردست اور کھلم کھلا ”مک مکا“کارواج تھا،آپ نے میٹر لیناہے تو اس کے پیسے آپ نے میٹر تبدیل کراناہے تو اس کے پیسے ،آپ نے PVC لینی ہے تو اس کے پیسے ، آپ نے MCOکراناہے تو اس کے پیسے ،آپ نے RCOکراناہے تو اس کے پیسے ،آپ نے ٹیوب ویل کا کنکشن لیناہے تو اس کے پیسے ،آپ نے کمرشل کنکشن لگواناہے تو اس کے پیسے یہ تمام پیسے واپڈا کی سرکاری فیس ڈیمانڈ نوٹس کے علاوہ لیے جاتے تھے اس رقم میں میٹر ریڈر، لائن سپرنڈنٹ ،ایس ڈی او کے علاوہ ایکسین اور ایس ای تک کی حصہ داری ہوتی تھی ۔واپڈا چونکہ وفاقی ادارہ ہے اس لیے ایف آئی اے ڈیل کرتاہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایف آئی اے نے اس انتہائی کرپٹ ادارے سے اپنی آنکھیں جان بوجھ کر چرا ئے رکھی اور آٹے میں نمک کے برابر اس ادارے کے افسروں یااہلکاروں پر ہاتھ ڈالااور ہاتھ بھی ایسا ڈالاکہ جیسے پکڑا نہ ہوبلکہ تھپکی دی ہوکہ جاﺅ بیٹا اب” کھل کھیلو“اس محکمہ کی چیرہ دستیوں سے سب سے زیادہ غریب،ایماندار، بے بس اوربے کس لوگ ہی متاثر ہوئے ہیں امیر اور صاحب ثروت لوگ ”مٹھی گرم “ فارمولے پر عیش کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں ۔(جاری ہے)

بعض بے بس لوگوں نے اپنے اوپر ڈالے گئے ناجائز بلوں اور واپڈاعملہ کے بے رحمانہ رویوں کی بناءپر اپنی جان گنوادی،کئی کیس ایسے ہیں جن میںکئی مجبور وبے بس خواتین میٹر ریڈر کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنوابیٹھیں لیکن عزت کے ڈر سے خاموش ر ہیں کئی افراد ایسے ہیں جن کے ناجائز بلوں نے ان سے ان کاچھوٹاموٹا کاروبار بھی چھین لیا،کئی کیس ایسے ہیں جن میں سگے رشتے دار ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ،لوگ سسکیوں اور آہوں کے ساتھ پلو اٹھاکر بددعائیں دیتے رہے، لیکن واپڈا عملہ کے کرتوتوں اور توہین آمیز رویوں میں فرق نہ آیایہ ادارہ ظلم و جبر میں پولیس کے محکمے سے بھی آگے نکل چکاتھامیں نے خود محکمہ پولیس کے متعدد تھانیداروں کو اس ادارے کے ایس ڈی او ز کے سامنے بے بس دیکھاہے اور عوام کی تو حیثیت ہی کیاتھی۔لیکن یکایک معلوم نہیں یہ کس بے بس و مجبور کی آہ تھی جو عرش کو ہلاگئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا محکمہ تبدیل ہوکر رہ گیا20کروڑ لوگوں کو”معاشی یرغمال“ بناکررکھنے والوں کی70سال پرانی عادتیں صرف تین ماہ میں تبدیل ہوکر رہ گئیں اور اس ناممکن کو ممکن کیا ایک مرد آہن نے ”ن “ لیگ کے سردار اویس خان لغاری جنہیں ان کی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف نے کافی عرصہ ” انتظار“ اور” صبر“ کاتڑکالگاکر ”بڑی “ذمہ داریوں سے دور رکھااور اپنی حکومت کے عین آخری سال میں اویس لغاری کو وفاقی وزیر برائے توانائی کی انتہائی اہم ذمہ داری سونپ دی ۔اور یہ ذمہ داری ان حالا ت میں سونپی جب ان کی حکومت نے قوم سے کئے اپنے ایک وعدے پر اگلے الیکشن میں ووٹ لیناتھا یعنی ملک سے لوڈشیڈنگ کے اندھیروں کاخاتمہ ،اس پڑھے لکھے جواں ہمت ،خاندانی سیاسی وراثت کے حامل شیر جوان نے وزارت کا حلف لیتے ہی اپنے زیر نگیں اس بگڑے محکمے کی اصلاحات کی ٹھان لی اور واپڈا کے الجھے معاملات میں گہری دلچسپی لی ساتھ ہی محکمے کی بنیادی جڑ یعنی غلط ریڈنگ کی سزا کیلئے قومی اسمبلی میں بل پیش کردیا اب غلط میٹر ریڈنگ کرنے والے کو تین سال قید اور پانچ لاکھ نقد جرمانہ کیاجا سکے گا یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوناتھاکہ اس محکمے میں” تبدیلی“ کی وہ لہراٹھی کہ الامان و الحفیظ، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پاکستان میں جیسے واپڈا کے مظالم کا” گھن چکر“ تھم ساگیابلکہ چکر الٹا چل پڑا اب عوام کواپنے بلوں میں گڑ بڑ کی فکر نہیں بلکہ افسروں کو اپنی نوکریوں کی فکر پڑی ہوئی ہے پہلے جو بیٹھے بٹھائے محکمے کو کھارہے تھے اب فیلڈ میں گھوم رہے ہیں منسٹری کی جانب سے صارف کے میٹر ریڈنگ کی فوٹو صارف کے بل پرپرنٹ کرنے کاحکم کیاجاری کیاگیا کہ اوور بلنگ کامنہ زور ہاتھی دھڑام سے منہ کے بل آگرا ۔ سابقہ تمام فرسودہ اور گلے سڑے سسٹم کو دنوں میں کمپیوٹرائز ڈ کردیاگیااب جیسے ہی صارف کے میٹر کی ریڈنگ کی جاتی ہے اسی وقت صارف کے موبائل پر میسج SMSآجاتا ہے کہ اس وقت آپ کے میٹر کی ریڈنگ اتنی ہے اور آپ کابل اتنی رقم کاہے اسی موبائل ایپلیکشن میں یونٹ کی ضرب تقسیم اور رقم بنانے کیلئے ایک کیلکولیٹربھی دیاگیاہے اب آ پ کے بل پرمیٹر ریڈنگ کاوقت،تاریخ ،میٹرریڈر کانام ،میٹرکی فوٹو ،لوڈشیڈنگ شیڈول ،آپ کے سب ڈویژن اور فیڈر کانام ،متعلقہ ایس ڈی او اور ایکسین کاموبائل نمبرسمیت متعدد معلومات شائع کی جارہی ہیں الغرض وہ تمام باتیں جن کی تبدیلی ناممکنات میں تھیں اب اتنے کم عرصے میں پتھرکے دور کی باتیں لگتی ہیں ،آج واپڈا یعنی بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنی تمام تر جدت آمیزی کے ساتھ صارفین کو سہولیات فراہم کررہی ہیں جہاں کہیںمرمت ،بجلی کی فراہمی اور ٹرانسفارمر ز کے مسائل ہیں فوری طور پر ایکشن لیے جارہے ہیں ،صارف کے مسائل پر کان دھرے جارہے ہیں افسران کے ”فرعون زدہ“رویوں میں تبدیلی آچکی ہے ،ملک میں بجلی بنانے کے نئے منصوبوں میں سے متعدد نے کام شروع کردیاہے اور ملک سے لوڈشیڈنگ کے عفریت کاخاتمہ ہوچکاہے یعنی موجودہ حکومت نے قوم سے کیا اپنا ایک وعدہ پورا کردیاہے اور بحیثیت قوم ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ ” اگر کرنے پر آئیں تو کیانہیں کرسکتے“ آج پاکستان کے عوام ایک عز م، جدوجہد اور مسلسل محنت کی وجہ سے نئے سال 2018ءکے” لوڈشیڈنگ فری پاکستان“ میں داخل ہوکر سکھ کا سانس لے رہے ہیں ۔

مزیدخبریں