قاضی حسین احمد بلاشبہ ایک فرد تھا، لیکن ایک تحرک ، سرگرمی، پرجوش رویے اور ایک ہمہ تن فعال شخصیت کا نام بھی تھا۔ قاضی حسین احمد ایک متحرک انسان، ایک بے قرار روح اور ایک مضطرب شخصیت کا نام تھا۔ ان کے اندر اضطراب اس لیے تھا کہ پورے معاشرے کو استحصالی نظام سے بچایا جائے، عدل و انصاف کی میزان نصب کی جائے، گرے پڑے لوگوں کو اٹھاکر سینے سے لگایا جائے اور معاشرے میں ظلم کی جتنی شکلیں ہیں ان سب کا خاتمہ ہو، اس کے لیے وہ کبھی ایک تو کبھی دوسری تدبیر اختیار کرتے تھے۔ بسا اوقات یہ عمل اس قدر تیز ہوجاتا تھا کہ لوگ شکوہ کرنے لگتے کہ ہمیں کوئی اور کام کرنے کا بھی موقع تو دیں، لیکن ان کا جواب بالکل واضح ہوتا تھا کہ کام تو ایک ہی ہے۔۔۔غلبہ دین اور اقامت دین کا کام، بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالنے اوربندوں کو ان کے رب کی غلامی میں دینے کا کام۔ یہی ایک کام تھا جس کی انجام دہی کے لیے وہ مختلف جہتیںاختیار کرتے اورمختلف انداز اوراسلوب اپناتے تھے۔
-Oسولہ برس کا ساتھ
میں قاضی صاحب کے ساتھ پورے سولہ سال، نہ ایک دن کم نہ زیادہ جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل رہا۔ اس سے پہلے ڈیڑھ سال ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اوراس سے پہلے دو مدتیں کراچی کے امیر کی حیثیت سے گزاریں۔ میں بلاخوف تردید یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ قاضی صاحب کی امارت میں میرے علاوہ کوئی اور فرد ایسا نہیں جو آگے بڑھ کر یہ کہہ سکے کہ وہ قاضی صاحب کے ساتھ زیادہ رہا ہے۔ ان کی خلوت و جلوت اور ان کے فیصلوں کے بارے میںمجھ سے زیادہ شاید ہی کوئی گواہی پیش کر سکتا ہو۔ میں ان کے سبھی معاملات، زندگی کے تمام دائروںاور خوشی غمی میں قاضی صاحب کے قریب رہا۔ ویسے یہ بات میں پروفیسر غفور صاحب کے بارے میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے زیادہ ان کی امارت اورجماعتی ذمہ داریوں میںکوئی دوسرا زیادہ دخیل نہیں رہا، اس لیے کہ میں ان کا سیکرٹری جنرل بھی رہا اور زندگی کے تمام دائروں میں ان کی معاونت اور ہر اعتبار سے ان کی نیابت کرتا رہا ہوں۔
انسان ہمیشہ انسان ہی رہتا ہے کبھی فرشتہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے یہ گمان کرنا کہ اس سے غلطی نہیں ہو سکتی یہ بہت سادگی کی بات ہے۔ قاضی صاحب سے سو پچاس نہ سہی دس بیس غلطیاں تو ہوئی ہوں گی، ہر کام کرنے والا انسان غلطی بھی کرے گا۔ کوئی انسان چاہے وہ کسی بھی منصب پر ہو، کوئی بھی ذمہ داری ادا کر رہا ہو، اس کی خامیاںگنوانا بے معنی بات ہو گی، کیوں کہ خامیاں تو ہوں گی؛ البتہ جماعت اسلامی کے نظام میں خامیوں کا علاج بھی موجود ہے۔ وہ لوگ جو سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ خامیوں پر توجہ دلائیں، اس لیے کہ وہ تخلیے میں وہ بات کر سکتے ہیں جو مجمعے میں نہیں کی جا سکتی۔ جماعت میں قاضی صاحب کو توجہ دلانے والے، متنبہ کرنے والے اور متبادل راستہ سجھانے والوں کی کبھی کوئی کمی نہیں تھی۔ وہ لوگ بھی تھے جو تندو تیز لہجے میں تنقید کیا کرتے تھے، مگر قاضی صاحب نے انہیں بھی کبھی اپنے آپ سے دور نہیں ہونے دیا۔ ان کے فیصلوں کے حوالے سے کچھ لوگوں کے تحفظات رہے ہوں گے، لیکن قاضی صاحب اپنی خوبیوں اورخصوصیات کی وجہ سے جانے جاتے رہیں گے ۔
-O -Oقاضی صاحب کی تعمیر
قاضی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، وہ اپنی ذاتی حیثیت میں بھی بڑے انسان تھے، وہ جمعیت علماء ہند کے ایک بہت بڑے عہدے دار کے بیٹے تھے، لیکن ؎ ان کی شخصیت سازی کے حوالے سے جماعت اسلامی کا جو کردارہے وہ بہت واضح ہے۔ ان کی تعمیر و تشکیل میں جماعت اسلامی نے بنیادی کردار اداکیا۔ جماعت اسلامی نہ ہوتی توقاضی صاحب بھی وہ قاضی صاحب نہ ہوتے جن کو ہم جانتے ہیں۔ قاضی صاحب تو بعد میں آتے ہیں، مولانا مودودیؒ کو لے لیجیے، انہوں نے سو کتابیں لکھی ہیں، دو سو بھی لکھی ہوتیں اور جماعت اسلامی نہ بنائی ہوتی تو لوگ اب تک انہیں بھول چکے ہوتے۔ خال خال کہیں ان کی کوئی چیز مل جاتی اور بس۔
یہ جو ایک سو زبانوں میںان کی کتابوں کے ترجمے ہو ئے ہیں، تو اس میں ان کی تحریک کا کردار کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے خود مولانا مودودیؒ بھی اگر اب تک لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں تو اس کا بڑا سبب اور وجہ جماعت اسلامی ہے جس کی انہوں نے بنیاد رکھی تھی۔ اس لیے میںسمجھتا ہوںکہ جو بھی شخص جماعت اسلامی میں ہے اس کے اندر جو خوبیاں ہیں اس کی شخصیت کی تعمیر کا کریڈٹ جماعت اسلامی کوجاتا ہے۔ قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کو مضبوط بنانے اور اسے منظم کرنے کے لیے بہت کام کیا، لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جماعت اسلامی نے قاضی حسین احمد کو بنانے میں اور ان کے حوالے کو مضبوط کرنے میںزیادہ کام کیا اور اس حوالے سے کوئی استثنیٰ بھی نہیں۔قاضی صاحب اور جماعت اسلامی نے روس کے خلاف افغانوں کی جدو جہد میں تاریخی کردار ادا کیا، اس میں صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوش نودی ہمارے پیش نظر تھی۔
ہم نے وہی کیا جو پاکستان کے بہترین مفاد میںتھا اور ہمارے عقیدے کا تقاضا تھا۔ ہمارا موقف ہمارے اپنے دلائل کی بنیاد پر تھا۔ ہم سمجھتے تھے جہاد افغانستان درست ہے، روسی فوجوں کا آنا غلط ہے، روس کی افغانستان میں کامیابی پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے خطرناک ہے، اس لیے ان کو واپس جانا چاہیے اور اس معاملے پر ہمیں افغانوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر آپ کے دلائل کے نتائج یہ ہیں اور اتفاق سے آپ کا دشمن بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہے تو اس وجہ سے آپ اپنا موقف چھوڑنہیںدیں گے۔ کیا اس خیال سے کہ امریکہ اس جنگ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ہم افغانوں کی حمایت ترک کر سکتے تھے؟
-Oمیری حلف برداری
امارت کے انتخاب کے بعد کافی عرصے تک ہم لوگ حلف برداری کی تقریب منعقدنہیں کر رہے تھے۔ میںنے قاضی صاحب سے کہا، شوریٰ کا اجلاس بلایا جائے، میں اپنی بات ارکانِ شوریٰ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، پھر دیکھا جائے گا کہ کیا کیا جائے۔ لوگوں کو بھی بہت فکر ہو رہی تھی کہ زیادہ وقت گزر رہا ہے اب تک حلف ہو جانا چاہیے۔
میں نے شوریٰ کے اجلاس میں لوگوں سے کہا، دیکھیں مولانا مودودیؒ اکتیس سال تک جماعت اسلامی کے امیر رہے، ۱۹۷۲ء میں جب انہوں نے استعفا دیا اور معذرت کی جو لوگوں نے قبول کی تو اس وقت ان کی عمر ۶۹ برس تھی۔ میاں صاحب پندرہ سال امیر رہے اور ۱۹۸۷ء میں جب انہوں نے امارت سے معذرت کی تو اس وقت ان کی عمر ۷۴ برس تھی۔ یہی معاملہ قاضی صاحب کا ہے۔ لیکن مجھے آپ امیر بنا ہی اس عمر میں رہے ہیں جس عمر میں لوگ امارت چھوڑتے رہے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں یہ جماعت کے ساتھ بھی انصاف نہیں اور خود میری ذا ت کے ساتھ بھی انصاف نہیں، کیوں کہ اس عمر میں آدمی کی استعداد کار اور چلت پھرت کم ہو جاتی ہے اور کام میں دلچسپی بھی ویسی نہیں رہتی جیسی عمر کے دوسرے حصوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے آپ میری معذرت قبول کر لیں اور اس کے علاوہ مجھے کوئی ذاتی الجھن یا پریشانی نہیں۔ ابھی دو چار لوگوں نے ہی اس پر بات کی تھی کہ قاضی صاحب نے حکم صادر فرما دیا:’’ بس جی اور کوئی بات نہیں سننی، ان سے کہیں کہ حلف اٹھائیں‘‘۔ اس کے بعد یہ اسی وقت طے ہو گیا کہ اسی شام حلف برداری ہو گی۔ اس طرح کی بات جب ان کی اور شوریٰ کی طرف سے آ گئی تو ظاہر ہے مجھے کوئی بحث مباحثہ تو نہیں کرنا تھا ۔