مادر علمی کو عزت دینے پروفاقی وزیر غلام سرور خان کا شکریہ

وفاقی وزیر پیٹرلیم سرور خان کا ’’مادر علمی‘‘ ایف جی پبلک اسکول واہ کینٹ تھا وہ وہاں گئے ،جہاں سے 1971 ؁ء میں میٹرک کیا۔اپنے خطاب میں اپنے مرحوم اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔اور کہا کہ آج کا دن خوشیوں بھرا ہے ،کافی عرصہ کے بعد اپنے اسکول میں آیا،جہاں سے کنڈر گارڈن سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔مسز سیف،مسز کشور اور مسز قاسم کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے اور کہا کہ آج جس مقام پر ہوں اپنے ماں باپ اور اساتذہ کی وجہ سے اور اسکول کی وجہ سے ہوں۔والدہ کی آغوش کے بعد مس نسیم راٹھور کی یاد آتی ہے،مسز جان یاد آتیں ہیں ،میری پرنسپل تھیں۔ میٹرک میں مسز جان کو میری شکایات پہنچی،یہ میں پہلی دفعہ شیئر کر رہا ہوں،مسز جان کلاس میں آئیں اور کہا کہ کلاس میں بیٹھ جائو اور کہا کہ سچ بتائو میں نے سچ بتایا جس پر مجھے سزا نہیں ملی۔وفاقی وزیر اپنے اساتذہ کی تقریر کے دوران احتراماََ کھڑے ہو گئے۔اپنے اسکول فیلو شہید کیپٹن عمرفاروق اور دیگر شہدا کے والدین کو اسٹیج پر بلایا اور احتراماََ کھڑے ہو گئے اور تالیاں بجا کر استقبال کیا۔وفاقی وزیر نے اپنی جیب سے 2 لاکھ اسکول کے لئے ادا کیا اور ہال تعمیر کرنے کا وعدہ کیا۔حسن اتفاق ہے کہ ایف جی پبلک اسکول واہ کینٹ میر بھی ’’مادر علمی‘‘ ہے جہاں اپنے بھائیوں ،بہنوں اور کزنز کے ہمراہ کنڈر گارڈن سے پڑھنا شروع کیا ۔میرے بڑے بھائی انجینئر محمد آصف قریشی بہت ذہین اور لائق طالب علم تھے جنہوں نے میٹرک اسی اسکول سے کیا اور میٹرک میں اسکول میں ٹاپ کیا اور سرگودھا بورڈ سے تیسری پوزیشن حاصل کی۔میری بہن ڈاکٹر عابدہ قریشی کے علاوہ انجینئر جاوید قریشی ،زاہد قریشی اور ڈاکٹر فاخرہ قریشی اور عابد قریشی نے بھی اسی تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کی ۔واہ کینٹ اسلم مارکیٹ اور لائق علی چوک میں ہمارے کاروباری ادارے والداور تایا جان نے قائم کیے، جو آج تک قائم ہیں۔برھان کے خان اسلم خان جن کے نام پر اسلم مارکیٹ قائم ہے،ان کی فیملی کے علاوہ واہ گارڈن کی حیات فیملی، کرنل رمضان ،اسلم مارکیٹ کے زیدی صاحب کی فیملی اور ٹیکسلا کے سرور خان کے علاوہ میر اور سید فیملی کے بچے اسی اسکول میں پڑھتے تھے۔واہ کینٹ میں پبلک اسکول کے علاوہ سرسید اسکول اور گورنمنٹ ہائی اسکول بھی تھے۔وفاقی وزیر خان سرور خان نے جس ادب ،احترام اور عزت و وقار کے ساتھ اپنے پہلے اسکول ،اس کے اساتذہ اور اپنے کلاس فیلوز کے والدین کو احترام دیا اور پرانی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔اس سے ان کے قلبی لگائو کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کی کامیابی اور عزت کا ’’راز‘‘ آشکار ہوا’’خانقاہ گولڑہ شریف‘‘ سے روحانی تعلق واہ پبلک اسکول سے علمی تعلق اپنے حلقے سے قلبی تعلق ان کی کامیابی کا راز ہے حالانکہ میٹرک کرتے ہوئے ان کے محترم والد حیات خان کے سایہ شفقت سے مرحوم ہو گئے اور ٹیکسلا میں مقیم ماموں جان نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سمبھالی۔سرور خان نے سیاست گراس روٹ لیول سے شروع کی۔ضلع کونسل کے الیکشن سے صوبائی نشت پھر قومی اور وفاقی وزارت تک پہنچے۔دوستوں اور دشمنوں میں ایک واضع تفریق ہے،دھڑے بندی کے علمبردار ہیں۔مضبوط اور توانا آواز کے ساتھ اپنی موجودگی کا اساس اپوزیشن اور حکومت میں کراتے ہیں۔واہ پبلک اسکول کا قرض ہم سب پر ہے۔کسی نہ کسی حیثیت سے ہر کوئی اپنا قرض اُتارتا ہے۔یقینا عملی زندگی میں جو کوئی جہاں ہے اس میں ابتدائی درسگاہ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ’’میڈیم جان‘‘ ہماری پرنسپل تھیں ،بہت دبدبہ تھا ،ایک وقار اور پہچان تھی،ان کی بہت خدمات تھیں۔پر وقار لباس اور اکثر ساڑھی میں ملبوس ہوتیں۔وائس پرنسپل مسز اسلام تھیں،مسز نسیم راٹھور جو کہ اردو پڑھاتی تھیں، جن کے ڈر سے بڑے بڑے طالب علم کانپتے تھے۔مسز محمود جو کہ ہمارے ایک اسکول فیلو کی والدہ تھیں،پنسل سے مارتی تھیں۔مسز سیف،مسز کشور،مسز احمد،مسز نجمہ اور مس نسیم جو کہ سائنس کی ٹیچرز تھیں۔ہمارے اسکول میں لیڈر نما طالب علم واہ کینٹ گارڈن کی خان فیملی کے عمران خان تھے،اسی طرح حیات فیملی کے بھی تھے۔پہلی کلاس سے میرے ساتھ فاروق ملک،شاہد علی،جاوید ہادی،لیاقت اللہ،جاوید قریشی،سلمان بٹ،نعمان بٹ،محمود،ظہور،مسعود اقبال کے علاوہ اور بہت تھے،شاید اب ان کے نام ہی یاد ہوں ۔ہزاروں کی تعداد میں طالب علم واہ پبلک اسکول سے پڑھ کر بہت اعلیٰ ترین عہدوں پر گئے۔پاکستان کے نامی گرامی کاروباری شخصیت بن گئے، سیاستدان بن گئے،حکومت میں بھی آئے،جنرل اور جج تک بن گئے۔ڈاکٹرز اور آرمی میں بھی گئے مگر گذشتہ پچاس سالوں میں غلام سرور خان نے عزت ،اقتداراور اختیار حاصل کر کے اپنی ابتدائی درس گاہ اور اس کے اساتذہ اور اپنے اسکول فیلوز کو جو عزت بخشی اس پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔1970 ؁ء اور 1980 ؁ء کی دہائی کے طالب علم گواہ ہوں گے جو معیار اس اسکول کا ماضی میں تھا آج نہیں ہے۔اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ اس کے اساتذہ اپنی زندگی کا مقصد تعلیم دینا ہی سمجھتے تھے۔میڈیم جان جو کہ سابقہ پرنسپل تھی ان کے وقت میں ایک مقرر وقت پر مین گیٹ بند ہو جاتا تھا۔پھر اسمبلی ہوتی تھی،اسمبلی کے بعد لیٹ آنے والے طلباء کو وارننگ دی جاتی ،اسکول کے اندر کوئی آئوٹ سائیڈر آ نہیں سکتا تھا۔آدھی چھٹی یعنی بریک جس کو ’’ریسس‘‘ کہا جاتا ،اس میں بھی کوئی بچہ اسکول سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔پرنسپل کے دفتر تک جانے کا کوئی طالب علم سوچ نہیں سکتا تھا۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بچہ اپنی کلاس اٹینڈ نہ کرے ۔اسکول انتظامیہ چونکہ خواتین پر مشتمل تھی صرف پی ٹی ماسٹر میل ہوتا تھا۔اس لئے خواتین کا معیار بہت اعلیٰ اور ڈسپلن ہوتا تھا۔واہ کینٹ کے اعلیٰ ترین گھروں کے بچے پڑھنے آتے تھے،جس میں 90 فیصد سرکاری ملازمین یعنی واہ آرڈیننس فیکٹری کے ملازمین کے بچے ہوتے تھے جن کو والدین بہت تاکید کرتے تھے کہ پڑھ لکھ کر بڑا ’’آدمی‘‘ یعنی معاشرے میں کامیاب انسان بنانا ہے۔ہمارا اسکول فیلو جاوید ہادی جو کہ اب ڈاکٹر ہے ان کے بڑے بھائی پرویز ہاری اور باقی بہنیں جو کہ چناب روڈ پر رستے تھے ان کے والد’’AWM ‘‘ تھے یہ تمام بہن بھائی اپنی کلاسوں میں ٹاپ کرتے تھے۔ہاکی،کرکٹ اور بیس بال کے علاوہ تقاریروں کے مقابلے ہوتے ۔سالانہ اسکول میں ’’محفل میلاد‘‘ کا انعقاد ہوتا۔سالانہ ’’سپورٹس ڈے‘‘ہوتا جس میں پی او ایف آرڈینینس فیکٹری کے چیئر مین جو کہ جنرل ہوتے یا پھر ان کی بیگم مہمان خصوصی ہوتیں تھی۔’’سپوٹس ڈے‘‘پر تمام والدین کو مدعو کیا جاتا تھا،بچوں کو انعامات ملتے تھے۔بچوں کو اسکول میں اتنی اعلیٰ اور معیاری تعلیم دی جاتی تھیںکہ گھر پڑھنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔آج بھی تقریباََ5 دہائی سے زیادہ عرصہ گذر گیا ،مگر واہ کینٹ پبلک اسکول کی یادیں کل کی باتیں لگتی ہیں۔لائق علی چوک سے پیدل یا پھر ٹانگے پر اسکول آتے ،پھر بڑی کلاس یعنی چھٹی کے بعد سائیکل پر آتے، 18 ایریا سے ہو کر 16 ایریا سے گذر کر اپنے اسکول داخل ہوتے تھے۔ٹیکسلا سے آنے والے بھی ٹانگے پر آتے تھے۔کبھی اسکول میں نہیں دیکھا اور سنا کہ کسی بچے نے سیگریٹ پی ہو،کوئی غیر اخلاقی بات کی ہو ۔بڑوں کا احترام ،اساتذہ کا ڈر خوف والدین سے بڑھ کر ہوتا تھا۔اللہ تعالیٰ تمام اساتذہ جو کہ فوت ہو گئے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے ،جو حیات ہیں ان کو صحت ،اور ایمان والی زندگی عطا ہو ۔تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔وفاقی وزیر غلام سرور خان کا خصوصی شکریہ جنھوں نے اپنی درسگاہ کو عزت بخشی ۔اللہ تعالیٰ ان کے مقام، عزت اور وقار میں اضافہ کرے ۔ آمین

ای پیپر دی نیشن