گزشتہ برس کے اواخر میں عمران خان نے کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ کر بھارت کو شدید مخمصے میں ڈال دیا۔ عمران خان کے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے لئے عمران خان کی پیشکش کو ٹھکرانا ناممکن تھا کیونکہ اگروہ اس سے پیچھے ہٹتے تو دنیا بھر میں انکی بدنامی ہوتی کہ سکھوں کے لئے ایک بہترین موقع انہوں نے محض اپنی ہٹ دھرنی کے باعث گنوادیا۔1984ء میں سکھوں نے مقدس مقام’’ گولڈن ٹیمپل‘‘Golden Temple امر تسر پہ فوجی کاروائی میں ہزاروں سکھ یاتری اور سکھوں کے رہنما سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کوہلاک کردیا گیا تھا۔ نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کو انکے دو سکھ محافظوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اپنی وزیراعظم کے قتل کا بدلہ چکانے کی خاطر بھارتی ہندوئوں نے سکھوں پہ حملہ کر دیا جس میں12,000سکھ انتہائی سفاکی سے قتل کردئے گئے جبکہ ہزاروں سکھوں نے برطانیہ، کناڈااور امریکہ میں پناہ لی۔ ان ملکوں میں سکھوںنے اپنی محنت اور جانفشانی سے اعلیٰ مقام حاصل کیا اوروہ حکومت میں بھی اعلیٰ عہدے پہ فائز ہیں۔ یہ سکھ 1984ء کے زخم بھولے نہیں ۔اگرنریندرمودی عمران خان کی مخلصانہ پیشکش کو قبول نہ کرتے تو دنیا بھرکے سکھ ان کا جینا دوبھر کردیتے۔
گرو نانک نہ صرف سکھ پیشوا ء ہیں بلکہ سکھ مذہب کے بانی بھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 18برس ننکانہ صاحب کے قریب کرتا پور کھیتی باڑی میں گزارے اور یہیں مدفن ہیں۔اس برس انکی550برسی ہے جس موقع پہ دنیابھر کے سکھ یاتری کرتا رپور کے مقدس مقام کی زیارت کو آنے کے خواہش مند تھے لہذا عمران خان نے انکی دلی مراد پوری کردی اور دوہ بغیر ویزا کے زیارت کی خاطر کرتارپور آسکتے ہیں۔ عمران خان کے عزیز سکھ دوست اور سابق بھارتی کرکٹ کے کھلاڑی نوجوت سنگھ سدھو جواب بھارتی سیاست داں بھی ہیں، عمران خان کے اس فیصلے میں انکا بھی ہاتھ ہے۔ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں سدھو بھی شریک تھے۔جس کھیت میں گرونانک ہل چلاتے تھے وہاں گنے اگتے ہیں اور سدھو اس کھیت سے کچھ گنے اور وہاں کی مٹی تبرک کے طورپر اپنے ساتھ لے گئے۔بھارتی حکومت اور میڈیا عمران خان کے دلیرانہ اقدام سے بوکھلا گئے اور اب طرح طرح سے انہیں بدنام کرنے کی کوشش میں ہے۔ ایک جانب وہ دنیا کو باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ پاکستان میں دراصل فوج کاراج ہے اور عمران خان پاک فوج کے پٹھوہیں۔ بھارتی جریدے ’’انڈیاٹوڈے‘‘India Today نے تو یہاں تک سرخی لگائی ہے۔ کہ عمران خان ایک کمزدر ٹیم کے کپتان ہیں۔1992ء میں کرکٹ عالمی کپ کے مقابلے میں بھی عمران خان ایک کمزور ٹیم کے کپتان تھے لیکن اپنی محنت، جانفشانی اور ٹیم کے تعاون سے انہوں نے عالمی کپ جیت کر دنیا کو حیران کردیا تھا۔
گزشتہ 22برس سے عمران خان سیاست کے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ انکی پارٹی نہ اتنا اثررسوخ رکھتی تھی کہ وہ گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی نہ ان کے پاس اتنی رقم تھی کہ وہ ووٹروں کو دولت کی چمک دکھا کراپنے پیشروئوں کی مانند انتخابات میں کامیاب ہوتے۔ 2018ٗء کے انتخابات میں عمران خان نے احتساب کانعرہ لگا کر اور پاکستان کو رشوت ستانی اور چوربازاری سے پاک معاشرہ بنانے کے عزم کے باعث ووٹروں کے دل جیت لئے اور اب وہ وزیراعظم ہیں۔ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد عمران خان نے اپنی مرحوم والدہ کے نام پر ایک کینسر ہسپتال بنانے کاارادہ کیا جہاں غربیوں کا علاج مفت ہو۔ اس عظیم منصوبے کی تکمیل کی خاطر بھاری رقم کی ضرورت تھی لیکن عمران خان نے دنیا بھر سے چندہ اکھٹا کرکے اس خواب کو پورا کردکھایا۔
وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے خزانہ خالی پایا۔ سابقہ حکومت نے لوٹ ماراکرکے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب کردیا۔ ملک میں بجلی اور پانی کی شدید قلت ہے عمران خان نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ کرنئے ڈیم بنانے کاارادہ کیا اورملک کو بیرونی قرضوں سے نکالنے کاادادہ کیا جسکے نئے وہ دوست ممالک سے رجوع کررہے ہیں۔ پچھلی حکومتیں پاک فوج کو اپنا دشمن تصور کرتی تھیں کیونکہ فوج انہیں راہ راست پہ لانے کی تلقین کرتی۔ عمران خان نے نہ صرف پاک فوج سے تعلقات استوار رکھے ہیں بلکہ وہ فوج کے سپہ سالار کو حکومت کا طابع بنائے ہوئے ہیں۔پاکستان کے لئے یہ خوش آئند بات ہے کہ فوج اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ بھارتی حکومت اور میڈیا کو عمران کی اور فوج کی ہر معاملے میں ہم خیال ہونے کی بات زہر لگتی ہے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ پاکستان غیر مستحکم ہوں زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کے وہ سیاست داں جن پہ رشوت ستانی اور چوربازاری کے الزامات ہیں یا جو اس جرم کے مرتکب پائے گئے ہیں وہ بھی اپنی جان بچانے کی خاطر اورقانون کے شکنجے سے نکلنے کی خاطر طوطے کی مانند نہ صرف بھارت کے عمران خان سے متعلق الزامات کودھرا رہے ہیں بلکہ اس تگ ودومیں ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو گرا کر خود سنگین مقدموں سے بچ جائیں۔
خود بھارت کا اپنا یہ حال ہے کہ بھارتی سینا اور حکومت میں شدید دراڑیں نظر آرہی ہیں۔ فوج کے سینا پتی نے حکومت کوصاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ بھارتی وزارت دفاع کے سولین افسران کو سینئر عہدہ جو میجر جنرل اور لیفٹیٹ جنرل کے مساوی ہے پہ پروموشن نہیں ہونے دیں گے۔ بھارتی وزارت دفاع کے چیف ایڈمنسٹریڈ نے30اکتوبر2018ء کو احکامات جاری کئے جو فضائیہ ،نیوی اور بّری افواج کے سپہ سالاروں کے نام تھے جسکے تحت سولین افسروں کے علیٰ عہدوں پہ ترقی کے آرڈر تھے اور ان واضح کیا گیا تھا کہ چونکہ وزارت دفاعی بّری، بحری اور فضائی افواج سے برتر ہے لہذا فوج میں سولین افسران اپنے مساوی رنیک کے افسروں کے نیچے نہیں ہوں بلکہ باوردی افسران ان کے ماتحت ہوں گے۔ احکامات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آرڈر رکھشا منتری (وزیر دفاع) شر یمتی نرملا سیٹھار امن کے حکم سے جاری کئے گئے ہیں۔
فوجی جو خود کوڈسپلن کا پابند تو رکھتے ہیں لیکن رینک اور عہدے کے معاملے میں حساس واقع ہیں ان میں ان احکامات سے سراسیٹمکی پھیل گئی ہے اور انہوں نے ان احکامات کی پابندی سے انکار کردیا ہے۔ یوں بھارتی فوج اور حکومت میں شدید دراڑیں پڑگئی ہیں۔
بھارت میں عام انتخابات 2019ء میں متوقع ہیں۔ نریندرمودی اور ان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی (پی جے پی) چونکہ بری طرح ناکام ہوچکی ہے لہذا اسے یقین ہوچکا ہے کہ اسے عام انتخابات میں شکست فاش ہوگئی۔ دوبارہ حکومت میں آنے کی خاطر انتہاء پسند ہندو جماعت بی جے پی کوئی خطرناک قدم اٹھا سکتی ہے۔ اس نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کازور لگادیا لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔عمران خان کو بدنام کرنے کا وار بھی او چھاپڑا۔ افغانستان جہاں بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘ نے پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال پھیلانے کی خاطر قدم جمائے وہاں اسکے قدم اکھڑنے لگے ہیں طالبان اب پاکستان کی مدد سے امریکہ سے براہ راست امن مذاکرات میںشریک ہیں۔ چین، روس، ایران اور افغانستان کی حمائت سے وہ افغانستان میں اپنے قدم سیاسی طور پر جمانے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اسے میں بھارت کو افغانستان میں اپنا اثرورسوخ گھٹتا نظر آرہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مودی کا مزاق اڑایا ہے۔
ایسی گمبھیر فضا میں بھارت انتہا تک جاسکتا ہے اور اپنے ملک کو یکجا کرنے کی خاطر کوئی دہشت گرد حملے کاٹو پی ڈرامہ رچا کر پاکستان کو مواد لازم ٹھہرا کرپاکستان پہ حملہ کرسکتا ہے۔ آئند ہ چھ ماہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے مدنظر انتہائی خطرناک ہیں اورپاکستان کو چوکنا رہنا پڑے گا۔