اقوام متحدہ کی قرار داد حق خود ارادیت

Jan 06, 2020

محمد صادق جرال

1947؁ء میں جب اپنی مدد آپ کے تحت کشمیریوں نے بھارت اور ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف اعلان جنگ کیا تو اس وقت بھارت کی فوجیں کشمیر میں سخت مشکلات سے دوچار تھیں۔ لہٰذا بھارت میں اپنے ممکنہ انجام کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ مسئلہ کشمیر یکم جنوری 1948؁ء کو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی دفعہ 35 کے تحت سلامتی کونسل میں پیش کر دیا گیا۔ سلامتی کونسل نے اس مسئلے پر طویل بحث کے بعد 21 اپریل 1948؁ء کو اس کے حل کے لئے 5 ممبروں پر مشتمل اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندو پاک قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمیشن جو 7مئی 1948؁ء کو معرض وجود میں آیا۔ اس سلسلہ میں اپنی ابتدائی قرار داد 13 اگست 1948؁ء کو منظور کی۔ لیکن پھر کئی پہلوئوں سے ناقص ، غیر واضح اور نامکمل قرار دیتے ہوئے 5جنوری 1949؁ء کو دوسری قرار داد منظور کی۔ جس میں مبہم اور غیر واضح امور کو واضح کیا گیا تھا۔ درحقیقت 13 اگست 1948؁ء کی قرار داد کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے اقوام متحدہ میں اپنے وفد کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس نا مکمل قرار داد کو خود کمیشن کے ذریعے واضح طور پر درست کرائے تاکہ بعد میں بھارت ان کی من مانی توجیح اور تعبیر نہ کر سکے۔ پاکستانی وفد نے قائد اعظم کی ہدایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے 5جنوری 1949؁ء کی قرار داد کے مبہم اور غیر واضح پہلوئوں کو واضح طور پر متعین کرانے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس قرارد اد میں خاص طور پر غیر واضح امور کو واضح کیا گیا ہے۔ (اولاً )13 اگست 1948؁ء والی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ استصواب سے پہلے پاکستان کو اپنی افواج ریاست سے مکمل انخلاء کا پابند ہو گا۔ جبکہ بھارتی فوجوں کی ایک خاص تعداد امن و امان بحال رکھنے کے لئے بدستور ریاست میں موجود رہیں گی۔ لیکن 5 جنوری 1949؁ء والی قرار داد میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاست میں پر امن حالات قائم ہونے کے بعد ناظم رائے شماری بھارتی حکومت کے ساتھ مشورہ کر کے بھارت اور پاکستان کی افواج کے حتمی انخلاء کا فیصلہ کرے گا۔ جس میں ریاست کو تحفظ اور استصواب رائے کے آزادانہ انعقاد کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے گا۔ (ثانیاً) 13 اگست والی قرار داد میں استصواب رائے کے طریقہ کار کو غیر واضح چھوڑ دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ دونوں حکومتیں قرار داد کے باقی حصے پر عمل درآمد کے بعد کمیشن میں اس بارے مذاکرات کریں گی۔ جبکہ 1949؁ء کی قرار داد کی دفعہ (1) میں استصواب رائے کے معاملے کو تقسیم برصغیر کے اصولوں کے مطابق واضح طور پر متعین کر دیا گیا اور کہا گیا کہ ریاست بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ آزادانہ ، غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے طے کیا جائے گا۔ اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک و ہند کی ان قرار دادوں پاکستان اور بھارت دونوں نے تسلیم کیا تھا اور عالمی برادری نے بھی ۔ بھارت1956؁ء تک عالمی برادری پاکستان اور کشمیریوں کو ان پر عملدرآمد کرانے کی یقین دہانی کراتا رہا ہے۔ لیکن بعد میں حیلے بہانوں سے عملدرآمد سے انکاری ہے۔ مسئلہ کشمیر آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں موجود ہے۔ بھارت جب چاہتا ہے مذاکرات کی میز بچھا دیتا ہے اور جب چاہتا ہے مذاکرات کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ بھارت کشمیر پر تو ظلم کے پہاڑ توڑ ہی رہا ہے لیکن 11 دسمبر 2019؁ء کو BJP حکومت نے اسمبلی میں متنازعہ شریعت بل پیش کر کے جس میں کہا گیا ہے کہ 31 دسمبر 2014؁ء سے بعد بھارت آنے والے مسلمانوں کو شہریت نہیں ملے گی۔ لیکن یہ قانون سکھوں، ہندوئوں ، عیسائیوں اور بدوئوں پر لاگو نہیں ہو گا۔

مزیدخبریں