یہ اطلاع ہے یا سازش؟

Jan 06, 2020

جمیل اطہر قاضی

یہاں کی شیطینت سے پُر زندگی میں خاص طور پر بھارت جیسے انسانیت دشمن وحشی درندے اور انسانیت کے ایسے قاتل جن کے ہاتھوں معصوم بچوں کو تحفظ حاصل رہا ہو نہ جوانوں کو، بچیاں محفوظ رہی ہوں نہ خواتین ایسے وحشی درندوں کو شہیدوں کے مقام کا کوئی ادراک حاصل ہو ہی نہیںآ سکتا۔
بہرحال اب امریکہ نے حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے ہم پر ایک احسان عظیم کردیا ہے جس کی کوئی ضرورت نہ تھی،بھارت کی جانب سے کسی بھی پیش رفت پر ہم خود زبردست جواب دینا بہتر طور پر جانتے ہیں لیکن پھر بھی امریکہ نے ہمیں آگاہ کیا اس کا شکریہ البتہ امریکہ نے جو خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حملے جنگ پسندوں دوسرے الفاظ میں پاکستان میں مصروف دہشت گردوں کی جانب سے متوقع ہیں تو امریکہ بہادراپنی تحقیقات کو درست کرلے خاص طور پر امریکی سی آئی اے اور پینٹا گان کہ جب پاک فوج دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرکے مطمئن ہوگئی تھی اس کے بعد پاکستان میں کوئی ایسا دہشت گردگروہ نہیں رہا جو اس نوعیت کی بڑی کارروائیاں کرسکتا ہے۔
ہاں البتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اب بھی افغانستان سے دہشت گرد تیار کرکے مرنے کے لئے یہاں بھیجتی رہتی ہے اور ان کا جو حشر ہوتا ہے اسکی پوری دنیا گواہ ہے کہ کوئی بھی دہشت گرد پاکستانی حدود میں داخل ہونے کے بعد زندہ نہیں بچا البتہ جو بزدل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے میں مصروف فوجی جوانوں کو نشانہ بناتے ہیں وہ بچوں کی طرح دور سے فائرنگ کرکے وہیں سے واپس فرار ہوجاتے ہیں وہ پاکستان میں داخل ہونے کی جرأت ہی نہیں کرسکتے۔
اس لئے ہمیں یہ توقع نہیں کہ پاکستان میں کوئی دہشت گرد اتنا قوی ہوگیا ہو اور اتنے وسائل کاحامل ہو اور یہاں سے ہماری فضائی حدود کو خطرناک بنادینے کی صلاحیت رکھتا ہو، اس انتباہ سے دو ہی نتیجے سامنے آتے ہیں کہ اب یا تو بھارت ہماری فضائی حدود میں محو پروار مسافر یا چھوٹے طیاروں پر طبع آزمائی کرسکتا ہے یا پھر یہ مذموم منصوبہ امریکی پینٹا گان کا بنایا ہوا ہے اور اس نے پیش بندی کے طور پر کہ اس کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کئے ہوں اس نے پیش از مرگ واویلا کے مصداق پہلے ہی یہ شور مچادیا کہ پاکستان میں دہشت گرد فضائی حدود کو متاثر کرسکتے ہیں۔ بہرحال ہم امریکہ کا اس احسان عظیم پر شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کی فضائی حدود میںحملہ کرنے کی اول تو کسی میں جرأت ہی نہیں اور اگر کسی نے ایسی حماقت کی بھی تو زندہ واپس نہیں جاسکے گا اس کا کنٹرول خواہ پاکستانی حدود میں موجود دہشت گردوں کے ہاتھ میں ہو یا بھارت کے یا پھر پینٹا گان کے، ذلت آمیز موت ان کا مقدر بنے گی۔ امریکہ کو اس مخبری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ درحقیقت اس کی وجہ عراق میں امریکی سفارت خانے پرہونے والا حملہ ہے جس کے حقیقی ذمہ دار تو داعش کے بچے کھچے افراد ہیں لیکن امریکہ نے حسب عادت اس کی ذمہ داری ایران پر عائد کرتے ہوئے اس کو خوف ناک نتائج کی دھمکیاں دی ہیں اور عراق میں اپنی فوج کی تعداد میں بھی اضافہ کردیاہے۔ اب ایسا محسوس ہوتاہے کہ امریکہ ایران کی فضائی حدود میں کوئی کارروائی کرنے کی سازش تیار کررہا ہے۔ عراق میں ایرانی جنرل سلیمانی کی فضائی حملے میں ہلاکت اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے لہٰذا اس نے پیش بندی کے طور پر پہلے پاکستان کو اس قسم کی مخبری کی ہے تاکہ دنیا کو یہ علم ہوجائے کہ پاکستان میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو اتنی قوت کے حامل ہیں کہ فضاء کو شہری پروازوں کے لئے بھی خطرناک بناسکتے ہوں اور یہ افراد جب حملے کریں گے تو وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ایرانی فضائی حدود میں بھی حملے کرکے ایرانی مسافر طیاروں کو نشانہ بناسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پاک ایران تعلقات کو بھی متاثر کردیا جائے یعنی ایک پنتھ اور دو کاج، لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ امریکی شرارتوں اور سازشوں سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ایران بھی آگاہ ہے، اب پاک فوج کو چاہئے کہ ایران کو امریکہ کی اس سازش اور اپنے خدشات سے آگاہ کردے تاکہ امریکہ، بھارت یا افغانستان کی ایسی کسی بھی کارروائی کے نتیجے میں ہمارے باہمی تعلقات متاثر نہ ہوں ویسے بھی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور بن جانے والے امریکہ کی منہ زوری کے مناظر دنیا بھر بالخصوص مشرق وسطیٰ میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں،اب وہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ’’ بندر کی بلا طویلے کے سر‘‘ کا چلن اپنا رہا ہے۔چند روز قبل بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے، جس میں ایک امریکی کنٹریکٹر مارا گیا،کی ذمہ داری ایران پر عائدکرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’ایران اس تنظیم کی پشت پناہی کرتا ہے ،اسی کے ایما پر حملہ کیا گیا، ہم پورا پورا انتقام لیں گے۔‘‘ اس ٹویٹ کی روشنی میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو حالیہ انتباہ پوری سازش پر بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں