گزشتہ دنوں مجھے دو شخصیات کے انٹرویوز گذشتہ دنوں ٹی وی چینلز پر سننے کا موقع ملا۔ ایک شخصیت مرحوم وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کی تھی۔ ان کا انٹرویو نصراللہ ملک نے انکی زندگی میں کیا تھا جو وفات کے بعد دوبارہ نشر کیا گیا۔ دوسرا شخص محمد اسحاق ڈار تھا، جس پر پاکستان میں متعدد مقدمات چل رہے ہیں اوروہ لندن میں مقیم ہے۔ دونوں میں کوئی مماثلت نہیں۔ اس کالم میں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ پاک آرمی کے بارے میں دونوں کے نظریات کیا ہیں۔ میرظفر اللہ جمالی نے صاف ستھری زندگی بسر کی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے علاوہ وزیراعظم پاکستان کے عہدہ جلیلہ پر بھی فائز رہے۔ اتنے اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود کرپشن سے پاک زندگی بسر کی۔ عاشق رسولؐ تھے۔ نیک نامی کمائی اور اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔ میرظفر اللہ جمالی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آج تک جتنے وزیراعظم آئے، فوج لے کر آئی۔ سب سے پہلے فوج ذوالفقار علی بھٹو کو لائی۔ ملک میں سارے الیکشن طے شدہ تھے۔ محمد نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کو بھی فوج لائی۔ فوج کا احسان مند ہونے کے بجائے اب وہ فوج کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا رول ہوتا ہے۔ چھانگا مانگا اور سوات میں جو لوگ بِکے، وہ سویلین تھے۔ فوج تو انہیںلے کر نہیں گئی تھی۔ اگر یہ لوگ نہ بِکیں تو کوئی انہیں خرید نہیں سکتا۔ جمالی صاحب نے انٹرویو میں جو دیگر باتیں کیں، وہ پاکستان کی تاریخ میں اہم ہیں اور سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ جس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ اب میں محمد اسحاق ڈار کا ذکر کروں گا۔ جس کا انٹرویو بی بی سی سے نشرہوا۔ اس انٹرویو کے اینکر سٹیفن سکر تھے۔ محمد اسحاق ڈار کے مذکورہ انٹرویو کے حوالے سے پاکستانی چینلز اور اخبارات میں بہت تبصرے ہوئے۔ میں صرف اس کا ذکر کروں گا جو فوج کے حوالے سے ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ محمد نواز شریف کو پاک فوج اقتدار میں لائی اور اب وہ اسی فوج کیخلاف تقریریں کر رہے ہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں۔ اسحاق ڈار کا جواب تھا۔ یہ ارتقائی عمل ہے۔ گویا اس کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف کو فوج لائی، اس وقت ان کا شعور پختہ نہیں تھا۔ جب بختگی آئی تو وہ فوج کیخلاف بیان دینے لگے۔ یعنی محسن کُش رویہ اختیار کیا۔ 24 ستمبر 1989ء کو روزنامہ نوائے وقت میں نواز شریف کا پینل انٹرویو شائع ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’یہ جنرل ضیاء الحق ہی تھے جنھوں نے 1985ء میں انتخابات کروائے۔ انہوں نے یہاں مسلم لیگ کی حکومت بلکہ ایک مسلم لیگی کو وزیراعظم نامزد کیا۔ مسلم لیگ بنانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔ انہوں نے ہی مسلم لیگ کی سرپرستی کی۔ جب میں نے مسلم لیگ بنانے کافیصلہ کیا تو ضیاء الحق صاحب خود بھی اس میں اتنے ہی شامل تھے، جتنے دوسرے زعمائ۔ ضیاء الحق صاحب، بھٹو صاحب سے بہتر ہیں۔ ضیاء الحق نے اس ملک کی بڑی خدمت کی ہے‘‘ ۔ نواز شریف کے پہلے سیاسی سرپرست جنرل غلام جیلانی تھے۔ جنھوں نے بطور گورنر پنجاب میاں نواز شریف کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ انکی سیاسی پرورش و پرداخت کر کے وزارتِ عظمیٰ تک لے گئے۔ اپنے اس محسن کے بارے میں ازاں بعد نواز شریف نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ وہ جنرل جیلانی کو مارشل لاء کی باقیات سمجھتے ہوئے رخصت کرنا چاہتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی تقریروں میں کہا کرتے ہیں کہ نواز شریف، جنرل غلام جیلانی کی کوٹھی میں سریا لگوا کر وزیر بنے۔ اس قسم کی خبر اس دور میں ایک اخبار (نوائے وقت نہیں) میں شائع ہوئی۔ جنرل جیلانی نے اس خبر کی تردید نہ کی۔ ایک بار کینٹ میں جنرل غلام جیلانی سے میری ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ خبر درست نہیں۔ میں بطور جنرل، فوج سے ریٹائر ھوا اور پھر گورنر پنجاب رہا۔ کیا میرے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ میں اپنا مکان بنوا سکتا؟ سیاست کی ابتدا نواز شریف نے تحریک استقلال سے کی۔ خالد محمود بٹ عرف بھئی پہلوان کا انٹرویو ’’نوائے وقت‘‘ میگزین میں شائع ہوا۔ جو فرزانہ چودھری نے کیا تھا۔ بھئی پہلوان نے اپنے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’نواز شریف تحریک استقلال میں تھے۔ بھولو پہلوان نے انکو ٹکٹ لے کر دیا۔ تب نواز شریف نے الیکشن لڑا اس وقت نواز شریف کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اپنی پراپرٹی کے حوالے سے اسحاق ڈار نے انٹرویو میں کہا۔ پاکستان میں میری صرف ایک پراپرٹی ہے، جس کو پنجاب سرکار نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس کی مراد وہ کوٹھی ہے جو 7H گلبرگ III لاہور میں واقع ہے۔ اس کوٹھی کے باہر ’’ہجویری ہاؤس‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اس کوٹھی کو پنجاب سرکار نے ’’مسافر خانہ‘‘ بنادیا تو اسحاق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحاق نے عدالت سے رجوع کیا اور دعویٰ کیا کہ مذکورہ کوٹھی میرے شوہر اسحاق ڈار نے میرے نام منتقل کر دی تھی، لہذٰا وہ اب اسکے مالک نہیں۔ قارئین! اسحاق ڈار مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور میں میرا ساتھی رہا ہے۔ میں اس وقت سے اسے جانتا ہوں۔ وہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ بعد میں اس نے اربوں کی جائیداریں بنائیں، جس کی تفصیل اخبارات میں چھپ چکی ہے۔ اسکے بیٹے علی ڈار کا ذکر نہیں کروں گا کہ دبئی میں اسکی کتنی جائیداد ہے۔