ادب اور صحافت کا ہمیشہ چولی دامن کاساتھ رہا ہے ‘ زیادہ دیر نہیں گزری جب اردو صحافت خود سے وابستہ ادیبوں ‘ خطیبوں ‘ انشاء پردازوں اور شاعروں کی نظم و نثر اورخطابت پر نازاں تھی لیکن بدقسمتی سے جب سے مجھ جیسے نالائقوں کا قلم و قرطاس سے رشتہ استوار ہوا ہے تب سے ادب ‘ صحافت اورزبان و بیان میں دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور یہ تسلسل رکنے کو نہیں۔ رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا نے نکال دی۔ ’’ممی ڈیڈی صنف‘‘ سے تعلق رکھنے والے اینکرز‘ رپورٹرز اور نیوز کاسٹرز نے تو لٹیا ہی ڈبو دی۔ کسی کاتلفظ ٹھیک ہے نہ گفتگو میں ربط ہے تاہم ایسے دور قحط الرجال میں بھی کئی شخصیتیں ادب اور صحافت کے رشتے کو قائم رکھے ہوئے ہیں ان میں ایک نام سعید آسی صاحب کا بھی ہے جو کسی لحاظ سے بھی محتاج تعارف نہیں۔ ٹریڈ یونین ہو یا پیشہ ورانہ صحافتی ذمہ داریاں ہوں۔ غزل ‘ نظم کی دنیا ہو یا مقفّع مسجّع نثر میں طبع آزمائی ہو۔ انہوں نے ہمیشہ اپنا نمایاں اور بھرپور حصہ ڈالا ہے۔
سعید آسی صاحب کی اب تک سات کتابیں منصّۂ شہود پر آ چکی ہیں جن میں پنجابی شاعری کے دو مجموعے سوچ سمندر‘ رمزاں ‘ اردو شاعری کا مجموعہ ’’تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں‘‘ سفرنامے ’’آگے موڑ جدائی کا تھا ‘‘ اور ’’جزیرہ جزیرہ‘‘ اسی طرح نوائے وقت میں شائع ہونے والے کالموں کا مجموعہ ’’کب راج کرے گی خلق خدا‘‘ اور ’’تیری بکل دے وچ چور‘‘ شامل ہیں تاہم ’’کلام سعید‘‘ کے نام سے شائع ہونیوالی تازہ ترین کتاب ان کی اردو‘ پنجابی شاعری پر مشتمل ہے۔ سعید آسی صاحب کی شاعری میں معاشرتی گراوٹ اور موجودہ صورتحال کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے جیسے
پائوں جمتے ہیں نہ دستار سنبھالی جائے
اب تو بس عزت سادات بچا لی جائے
بھوک بڑھنا ہی بغاوت کا سبب ہے آسی
یہ روایت میری سرکارنہ ڈالی جائے
سیاسی افراتفری کے باعث قوم کا پیمانہ صبر لبریز ہونے اور ذمہ داریوں سے حکومتوں کی چشم پوشی کی تصویر کشی بھی کرتے ہیں کہ …؎
قوم پر طاری ہوا ہے چھین لینے کا جنوں
اور پاگل پن میں ہے سرکار‘ الٰہی خیر ہو
قافلہ ہٹنے لگا ہے اپنی منزل سے پرے
بے خبر ہے قافلہ سالار‘ الٰہی خیر ہو
خون میں ڈوبے ہوئے اپنے وطن کو دیکھ کر
اب زمانہ ہو گیا بے زار ‘ الٰہی خیر ہو
جھوٹا موٹا عشق مشک نہ ہو تو شاعری پھیکی لگتی ہے اس لیے ادب کا یہ ’’لازمہ‘‘ بھی سعید آسی صاحب کے کلام میں ملتا ہے جیسے ……؎
عشق پختہ ہے میرا اے میرے محبوب ! مگر
حسن تھوڑا سا ستم اور بھی ایجاد کر لے
دل کے لٹنے کا سبب بھولنے والا تو نہ تھا
اک ستم گر نے تیرا نام لیا ‘ بھول گئے
اسی طرح سعید آسی صاحب نے بحیثیت مجموع تنزلی کا بھی شاعری میں تذکرہ کیا ہے کہ …؎
کچھ تو اسباب ہیں اس بے سروسامانی کے
اپنے احباب کی تاریخ کھنگالی جائے
آس و یاس پرمشتمل روایتی شاعرانہ تخیلات بھی سعید آسی صاحب کی شاعری میں پائے جاتے ہیں مثلاً
جاگتی رات میں یوں اپنے مقدر سوئے
ہم اٹھانے کے لئے دست دعا بھول گئے
سلسلے درد کے تھمتے ہی نہیں ہیں آسی
ہم تو اس حبس میں جینے کا مزہ بھول گئے
انفرادی ‘ اجتماعی ‘ قومی اور بین الاقوامی سطح پر عدم برداشت کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں کہ …؎
گولے ‘ بم ‘ بارود سے کم پر کوئی آتا نہیں
کیوں دلیلوں میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں
دنیا کی بے ثباتی ‘ انسان کی بے بسی اور خون کے رشتوں کی آپا دھاپی کاتذکرہ یوں کرتے ہیں کہ
اپنے پائوں پہ آتا ہے نہ اپنے پائوں پہ جاتا ہے
تیری کیا اوقات ہے بندے جس پہ تواتراتا ہے
تیرے خون کے رشتے ہی تیرا خون نچوڑیں گے
جن کی خاطر دنیا میں تو اپنا خون جلاتا ہے
تیرے بعد وہ پڑ جائینگے ضربوں میں تقسیموں میں
جن کے سکھ کی خاطر تو دولت کے ڈھیر لگاتا ہے
شاعری کی عشقیہ روایات کی طرح کبھی کبھار تو یوں لگتا ہے کہ جیسے عشق نے آسی صاحب کو مجنوں بنا دیا ہو۔ مثلاً
برباد جوانی روتی ہے پھر بھی آسی
امید کے دیپ جلاتا ہوں سو جاتا ہوں
نام نہاد جمہوری حکومتوں عوامی خوش فہمیوں کاتذکرہ کرتے ہیں کہ …؎
جھومتے ہو کہ یہ مزدورراج آیا ہے
حکمرانوں نے تمہیں کچھ یقیں دلایا ہے
لیکن افسوس کہ تم ہر فریب کھاتے ہو
آج بھی ان کی محبت کے گیت گاتے ہو
اسی طرح پنجابی شاعری میں بھی سعید آسی صاحب نے دنیا فانی کی تصویر کشی کی ہے کہ …؎
ٹردے جاندے نیں کیوں لوک
نہ کوئی جھگڑا نہ کوئی گل
پنجابی محاوروں سے بھی شعروں میں رنگ بھرے ہیں جیسے …؎
اپنا ای ڈھڈ ننگا ہویا
جدوی ڈھڈ توں پلاّ چکیا
معاملات اور معمولات زندگی میں انسان کے ظاہر و باطن کی عکاسی بھی کی گئی ہے مثلاً …؎
سوہنیاں شکلاں والے ویکھے
اندروں دل دے کالے ویکھے
پنجابی شاعری اور عشق و محبت کے اہم کردار ’’ڈھولا‘‘ کا بھی خصوصی ذکر ہے کہ …؎
ڈہل پے نیں اتھرو تے اکھ پئی اے جاگ وے
تیرے باہجوں ڈھولا میرے سڑ گے نی بھاگ وے
پنجابی بحر میں صوفیانہ جھلک ہے اور معروف پنجابی شعراء کا طرز نظر آتا ہے۔
کلّے کلّیاں جندنوں روگ لا کے
ہو کے وَکھ جہاں توں بہہ جائیے
کجھ رکھیئے دکھ حیا تڑی دے
کجھ رمز دیاں گلاں کہہ جائیے
الغرض سعید آسی صاحب کے مجموعہ ’’کلام سعید‘‘ میں ہر صنف (نظم ‘ غزل) اور ہر رنگ موجود ہے ‘ اللہ کرے زور بیان اور …
٭…٭…٭
عشق پختہ ہے میرا…
Jan 06, 2021