نیا سال شروع ہو چکا ہے پچھلے سال کے غموں کو بھلائے اس سال کا آغاز اس ا میدکے ساتھ کیا کہ وہ تمام دکھ ، تکلیفیں اور مشکلات جو گزشتہ سال ہماری زندگیوں سے خوشیوں کے جگنو لے گئیں اس سال آس کی تتلیاں رنگ اور روشنیاں لے کے لوٹ آئیں گی ۔ کورونا کی وجہ سے چھائی دنیا بھر میں ویرانی ختم ہو گی اور پھر سے زندگی کی رونقیں بحال ہوں گی ۔ پاکستان کے لوگوں کو بھی اچھے دن دیکھنے کو ملیں گے ۔ ابھی تو نئے سال کی خوشیاں مدہم نہیں پڑی تھیں ، ابھی تو نئے سال کی آمد پہ منائے گئے جشن کی روشنیاں کم نہیں ہوئی تھیں ، ابھی تو آنے والے دنوں میں اچھی امید رکھے دل دعائوں سے لبریز تھے اور نئے سال کی نیک تمنائوں کے پیغام زیر گردش تھے کہ ایسے میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک دلخراش واقعے نے ساری قوم کو ہلا کے رکھ دیا۔
پاکستان میں پچھلے کئی سالوں میں پولیس گردی کے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات پیش آئے ہیں جنہوں نے عوام کا اپنے قانون کے رکھوالوں پہ اعتماد بہت کم کر دیا ہے ۔ سانحہ ساہیوال جس میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے خون میں نہلا دیا گیا ۔ ساری قوم اس واقعے کی عینی شاہد بنی حکومت کی طرف سے ملزموں کو پکڑنے کے وعدے کئے گئے اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے یہاں ہوتا آرہا ہے کہ لوگ کچھ عرصے بعد ویسے ہی واقعہ کو بھول گئے ۔ پولیس اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے میں کامیاب ہو گئی اور آخر کار اس کیس کو فریقین کی صلح کے بعد داخل دفتر کر دیا گیا ۔ اسی طرح بلوچستان میں عبید طالب علم جس کا قلم اس کی بے گناہی کا ثبوت دے رہا تھا، کراچی رینجرز سے ہلاک ہوا نوجوان سرفراز، اے ٹی ایم مشین سے چوری کرنے والا نفسیاتی مریض صلاح الدین اور جانے کتنے اور جن کی اطلاع ہم تک پہنچتی نہیں یا جنہیں تاریک راہوں میں مار دیا جاتا ہے اور کوئی گواہ ، ثبوت نہیں ملتا ان کی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لئے ۔اگر ان واقعات میں ملوث لوگوں کو سزائیں دے دی جاتیں تو شاید اسلام آباد میں یہ سانحہ نہ پیش آتا ۔
اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں اکیس سالہ نوجوان اسامہ ستی اس بے دردی سے مارا گیا کہ سننے والوں کی روح تک کانپ اٹھی ۔یہ واقعہ کچھ دن قبل وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں رات دو بجے اس وقت پیش آیا جب پولیس نے اسامہ نامی نوجوان کو گاڑی کے کالے شیشے ہونے کی وجہ سے روکا اور بقول پولیس نوجوان کے نہ رکنے پر انہوں نے بائیس گولیاں اس کے وجود میں اتار دیں ۔ اسامہ کے والد کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے نے واقعے سے ایک روز قبل مجھے بتایا تھا کہ اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں سے اس کی تلخ کلامی ہوئی تھی جس کے جواب میں انہوں نے اسامہ کو دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں اس کا مزہ چکھائیں گے اور پھر اگلے دن ہی یہ واقعہ رونما ہو گیا ۔ سوال یہ ہے کہ فرض کریں اگر اسامہ کا کوئی قصور تھا بھی بظاہر جس کے شواہد کم نظر آتے ہیں کیونکہ پمز ہسپتال کے ترجمان کا کہنا ہے نوجوان کو گولیاں سامنے سے ماری گئیں ۔ پولیس ذرائع کے مطابق گاڑی سے کوئی اسلحہ نہیں ملا۔پھر بھی پولیس کے پاس اس طرح کسی کی جان لینے کا اختیار نہیں ہے ۔ اگر پولیس کو کسی وجہ سے اس پہ کسی بات پر شک پڑا بھی تو ایسی صورت میں گاڑی کا پیچھا کیا جاتا ہے ۔ اسے گھیرا جاتا ہے اگر پھر بھی کچھ نہ بنے تو گاڑی کے پہیوں پر فائرنگ کی جاتی ہے نا کہ سامنے سے اگلے کے سینے میں اور جسم میں بائیس گولیاں اتار دی جائیں اور وہ بھی محض شک کا سہارا لیتے ہوئے ۔ اربوں روپے کے سیف سٹی پراجیکٹ ، گاڑیاں ، ڈرون کیمرے پھر بھی ایک نوجوان کو قتل کر دیا گیا محض لفظ مشکوک ، یہ تو سارا سسٹم ہی پھرمشکوک ہے ۔قانون مشکوک ہے
وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے پولیس کو ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا تھا جس میں ناکامی کی وجہ سے ہی آج اتنے بڑے سانحے نے جنم دیا اگر اس واقعے کے بعد بھی بات صرف نوٹس لینے ، کمیٹیاں بنانے تک محدود رہتی ہے تو پھر اس عوام کا اللہ ہی حافظ ہے ۔اگر سانحہ ساہیوال اور دیگر واقعات میںملوث ملزموں کو سخت سزائیں دی جاتیں تو آج یہ ناحق قتل نہ ہوتا ، کوئی جا کے اس ماں سے پوچھے جس کے بیٹے کا چھلنی وجود اس کے سامنے بے سدھ خون میں نہایا ہوا پہنچا کہ اس کے دل پہ کیا بیتی ہو گی ۔ ارے بے دردی سے اس بچے کا خون کرنے والو تمہیں کیا پتا کہ ایک ماں کیسے اپنے بیٹے کو جوان کرتی ہے ۔جب محافظ ہی قاتل بن جائیں تو عوام کس سے انصاف اور تحفظ کی امید رکھے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام اپنی جگہ لیکن اس طرح کے واقعات عوام کے دلوں میں اپنے اداروں پر بد اعتمادی کا باعث بنتے ہیں ۔یہ ظلم ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہے ۔ہر جان قیمتی ہے اور ہر جان کا زیاں ناقابل تلافی ہے ۔ پولیس گردی کا یہ واقعہ نہ تو پہلا ہے اور نہ ہی آخری ہو گا جب تک کسی ایک واقعے کو مثال بنا کے ملزموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا ورنہ اس طرح کے سانحے یونہی جنم لیتے رہیں گے ۔
٭…٭…٭