وطن عزیز میں وفاقی اور صوبائی سطح پر افسران کی بھرتی کے لیے مقابلے کے امتحانات کا نظام موجود ہے۔ ان امتحانات کا انعقادوفاق میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبوں میں صوبائی پبلک سروس کمیشن کے تحت ہوتا ہے۔ وفاقی کمیشن ہو یا صوبائی، ریاستی نظم و نسق چلانے میں اس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ یہ کمیشن وفاقی اور صوبائی محکموں کے لیے افسران کی تقرری کی انتہائی اہم ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے۔اس کا بنیادی فریضہ دیانت داری، شفافیت اور انتہائی مستعدی کے ساتھ میرٹ پر پورے اترنے والے ایسے امیدواروں کا انتخاب ہے جو مختلف محکموں میں نہایت عمدگی، پیشہ وارانہ مہارت اور قابلیت کے ساتھ اپنے فرائض ِمنصبی سرانجام دے سکیں۔
ظاہر ہے یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے اور بہت زیادہ احتیاط کی متقاضی ہے۔ کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ امیدواران ہی آگے چل کر ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں ۔یہی لوگ عملاََ مختلف محکموں کا نظام چلاتے ہیں اور ایک عام شہری کو بار بار ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ بیوروکریسی کو انتظامی امور میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہی بیوروکریسی کمزور ہو جائے توپورا نظام کھوکھلا ہو کے رہ جاتا ہے جس سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ اچھا اور ایمان دار آفیسر پورے محکمے کی کایا پلٹ دیتا ہے ۔رشوت ستانی ، کرپشن، اقربا پروری اور سرخ فیتے جیسے عذابوں کے خاتمے میں سب سے اہم کردار کسی بھی محکمے کے اپنے افسران کاہوتاہے۔
اگر افسران بالا ہی بدعنوان ہوں، رشوت خور ہوں، کام چور ہوں، ہڈ حرام ہوں، ’’سب چلتا ہے‘‘ کے فلسفے کے پرچارک ہوں تو نہ صرف عوام ذلیل و خوار ہوتے ہیں بلکہ محکموں کا بھی دیوالیہ نکل جاتاہے ۔ پاکستان سٹیل مل ، ریلوے ، پی آئی اے یا دیگر قومی اداروں کی تباہی کے ذمہ دار ایسے ہی بدعنوان آفیسرز ہیں جو دیمک کی طرح ان محکموں کو کھوکھلا کر چکے ہیں ۔ نا اہل اور کام چور افسران ملکی خزانے پر تو بوجھ بنتے ہی ہیں ، اداروں کی تباہی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ لہٰذا محنتی، قابل اور دیانت دار افسران کا انتخاب ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو پبلک سروس کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر پنجاب پبلک سروس کمیشن کے حوالے سے بہت سی خبریں گردش کر رہی تھیں جن میں سر فہرست یہ خبر تھی کہ کمیشن کا امتحانی نظام شفاف ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ ایسے نقائص موجود ہیں جن کا کچھ لوگ بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔بہت سے طلباء و طالبات کا کہنا تھا کہ مختلف آسامیوں پر تعیناتی کے لیے لاکھوں روپے کے عوض مخصوص امیدواروں کو قبل از وقت سوالیہ پرچہ تھمادیا جاتاہے جو امتحان میں بآسانی کامیاب ہو کر مطلوبہ آسامیوں پر براجمان ہو جاتے ہیں ۔ مختلف پوسٹوں کے لیے عام طور پر 100 نمبر کا معروضی امتحان لیاجاتاہے جس میں انگریزی، اردو، تاریخ، ادب ،کمپیوٹر، ریاضی،سائنس اور حالات حاضرہ پرمشتمل سوالات پوچھے جاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ تمام پوسٹوں کے لیے یہی نصاب ہو ۔
پنجاب پبلک سروس کمیشن کی طرف سے جب یہ آسامیاں اخبارات میں مشتہرہوتی ہیں تو ساتھ ہی امتحانات کا نصاب بھی بتادیا جاتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے امیدواران ملازمتوں کے حصول کے لیے تیاری شروع کردیتے ہیں ۔ اب اگر چند لاکھ روپے کے عوض 100 نمبر کایہ سوالیہ پرچہ قبل ازوقت ہی مخصوص امیدوراوں تک پہنچ جائے تو نہ صرف میرٹ کا قتلِ عام یقینی ہے بلکہ کمیشن کی ساکھ پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ جہاں یہ ایک بہت بڑا انکشاف تھا وہاں محنتی اور قابل امیدواروں کے لیے حددرجہ اذیت کا باعث بھی بنا۔ چنانچہ طلباء و طالبات نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے خلاف پنجاب بھر کے مختلف شہروں میں احتجاج شروع کر دیا جس کی خبر میڈیا پر چلتی تو رہی لیکن بظاہر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔
در اصل معروضی طرز کے مشکل امتحان میں 100 میں سے 80 نمبر لینا بہت معنی رکھتاہے اور عمومی طور پر میرٹ 70سے80کے درمیان رہتا ہے۔ لیکن کمیشن کے تحت لیے جانے والے گزشتہ کچھ امتحانات میں بحیثیت مجموعی میرٹ مسلسل 85 سے زیادہ رہا۔ اس صورتحال نے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیااور سینکڑوں نوجوان سوشل میڈیا پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے لگے۔مورخہ 28 دسمبر کوشدید دُھند اور ٹھٹھرتی سردی میں سینکڑوں امیدواروں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور کے باہر ان بے ضابطگیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔ میرٹ اور شفافیت کی بالادستی کا مطالبہ کیا۔ اکثر امید وارلوئر مڈل کلاس سے تھے اور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا رونا رو رہے تھے۔ امیدواروں کے پاس سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے بہت سے ایسے سکرین شارٹس اور کچھ صوتی پیغامات تھے جن سے یہ تأثر ملتاتھا کہ کچھ لوگ قبل از وقت سوالیہ پرچہ حاصل کر لیتے ہیں ۔ بادی النظر میں یہ ثبوت کافی تھے اور کمیشن کو ان تمام باتوں کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کی بھر پور تحقیقات کرانی چاہیے تھیں۔
لیکن پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) مقصود احمد نے ان تمام ثبوتوں کو ناکافی قرار دے کر ان کی تردید کر دی اور ایک عدد پریس کانفرنس بھی کر ڈالی ۔ا نھوں نے یہ بات تکرار کے ساتھ کی کہ امیدواروں کا احتجاج بے معنی ہے اور کمیشن کاامتحانی نظام انتہائی شفاف اور منظم بنیادوں پر قائم ہے اور سارے کا سارا نظام میرٹ پر قائم ہے ۔ لیکن ایک ہفتے میں ہی ان کے بلند بانگ دعووں کی قلعی کھل گئی اور میرٹ کے قتلِ عام کا ایسا ہوشربا سکینڈل سامنے آیا جس نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کی ساکھ کو بری طرح مجروح کردیاہے۔
خامہ انگشت بدانداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے
٭…٭…٭