٭صدق کی حقیقت یہ ہے کہ تم وہاں سچ بولو جہاں تمہیں جھوٹ کے بغیر نجات نظر نہ آتی ہو۔
٭دوسروں کی رہنمائی تو کوئی صاحب علم وبصیرت ہی کرسکتا ہے تم خود اندھے ہوکر دوسروں کی رہنمائی کیسے کرسکتے ہو،کوشش کرو کہ دائیں ہاتھ کے صدقے کی بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ کل آئے اورتم خود محتاج ہو۔٭علماء (ربانیین ) کی خدمت میں حسن ادب ، ترک اعتراض اورحصولِ فوائد کے لیے حاضری دو۔٭پہلے اپنے آپ کو نصیحت کرو پھر دوسروں کو ۔٭اگر حقیقی کامیابی مقصود ہے تو اطاعت رب میں نفس کی مخالفت کرو۔٭جو فاسق کے ساتھ مجالست کرتا ہے وہ گناہ پر دلیر ہوجاتا ہے اور اسے توبہ کرنے کی توفیق نہیں ملتی۔٭جو بادشاہوں کے ساتھ مصاحبت کرتا ہے اس کا دل سخت اور وہ مغرور ہوجاتا ہے ۔٭جو علماء ربا نیین سے رفاقت اختیار کرتا ہے ۔وہ متقی اور عالم ہوجاتا ہے۔ ٭جو عورتوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس کی جہالت اور بری خواہش بڑھ جاتی ہے۔ ٭جو اتقیاء کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ اطاعت الہیٰ سے سرشار ہوجاتا ہے۔٭فقر کی حقیقت یہ ہے کہ تو اپنے جیسے انسان کا محتاج نہ رہے۔٭اے مالدار اپنی دولت کی بنا پر آنے والے کل سے روگردانی نہ کر ۔٭تیرا دل اللہ کا گھر ہے غیر کو اس سے نکال دے۔٭صادق وہ ہے جو اقوال ،افعال، اور احوال میں صداقت کو پیشِ نظر رکھے۔ ٭جو اللہ کا ہو کررہے اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے۔
٭ دنیا کو دل سے نکال دو اور ہاتھ میں لے لو۔٭نہ کسی سے محبت میں جلدی کرو اور نہ عداوت ونفرت میں عجلت سے کام لو۔٭دولت حاصل کرو مگر وہ تمہارے ہاتھ میں رہے دل پر قبضہ نہ کرے۔٭حسنِ خلق یہ ہے کہ تم پر جفائے خلق کا مطلق اثر نہ ہو۔٭تم نفس کی خواہش پوری کرنے میں لگے ہواور وہ تمہیں برباد کرنے میں مصروف ہے۔٭کوشش یہی کرنی چاہیے کہ بات جواباً ہو ابتداء اپنی طرف سے نہ ہو۔٭مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو لوگوں کی عیب جوئی میں مشغول ہے اور اپنے عیوب سے غافل ہے۔٭غربت اور بیماری صبر کے بغیر عذاب ہیں اور صبر کے ساتھ عزت۔
٭اپنی خوشی کو گھٹائو اور رنج ومحن کو بڑھائو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایسی ہی تھی۔٭دنیا نے تجھ جیسے ہزاروں کو پالا پوسا ، موٹا تازہ کیا اور پھر خود ہی کھالیا۔