منگل کوایوان بالا میں تمام سیاسی جماعتوں 5 جنوری کو کشمیریوں کے یوم حق خود ارادیت کے دن کی مناسبت سے اظہار یک جہتی کیا۔ اگرچہ تمام سیاسی جماعتوں نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور کشمیر پر قومی پالیسی تیار کرنے پر زور دیا۔ تاہم اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کشمیر کے تناظر میں ایک دوسرے پر طنزو تشنیع کے تیر چلاتے رہے۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق جن کا مسئلہ کشمیر پر وسیع مطالعہ ہے نے عمدہ تقریر کی انہوں نے مسئلہ کشمیر کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا اور آئین پاکستان میں کشمیریوں کے لئے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی گنجائش کا ذکر کیا۔ حزب اختلاف کے رہنمائوں نے حکومت کی کشمیر پالیسی پر شدید تنقید کی۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کشمیر کے لئے ایک نائب وزیر خارجہ کا عہدہ تخلیق کرنے کی تجویز پیش کی جو اپنی تمام تر توجہ مسئلہ کشمیر پر مرکوز رکھے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی حکومت کے گن گاتے رہے اور کہا کہ ہم نے سید علی گیلانی صاحب کو پاکستان کا سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا جو انہوں نے قبول کیا۔ آج ہم اس فورم سے کشمیریوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم حق خود ارادیت کی اس جدوجہد میںان کے ساتھ ہیں۔ عائشہ رضا فاروق نے بھی عمدہ تقریر کی انہوں کشمیر پر بھی بات کی لیکن ان کی تقریر سیاسی نوعیت کی تھی جس میں اپوزیشن کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تذکرہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کوکشمیر پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے تمام ڈیٹا اکٹھا کر کے کمیٹی کو بھجوایا جائے، یہ ڈیٹا اکٹھا ہو اور پھر اس پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مودی حکومت کے جنگی جرائم پر عالمی عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ سراج الحق کی جاندار تقریر تھی انہوں نے کہا کہ لوگ نیلسن منڈیلا کی بات کرتے ہیں۔ آسیہ اندرابی کے شوہر نے اکتیس سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، سید علی گیلانی ستائیس سال تک نظر بند رہے۔